افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پاکستانی خدشات

افغانستان میں تعینات امریکی افواج (فائل فوٹو)

وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ افغان فوجیوں کی طرف سے نیٹو کے سپاہیوں پر حملوں میں اضافے سے، افغان فورسز کی کارکردگی کے بارے میں پاکستان کے شبہات کو تقویت ملتی ہے۔
اب جب کہ امریکی اور بین الاقوامی فوجیں افغانستان سے واپسی کے منصوبے بنا رہی ہیں، ہمسایہ ملک پاکستان میں اس حکمت عملی کے بارے میں اظہارِ خیال کیا جا رہا ہے۔ سرکاری عہدے داروں نے کہا ہے کہ اس علاقے میں عسکریت پسندوں کے تشدد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے افغان سکیورٹی فورسز کی کارکردگی کے بارے میں بھی شک و شبہے کا اظہار کیا ہے۔

پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ ملک میں افغان پناہ گزینوں کا نیا ریلا آ رہا ہے اور حال ہی میں پشاور جیسے سرحدی شہروں میں افغان سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے خیال میں، اس رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ انہیں یہ فکر ہے کہ جب اگلے سال کے آخر تک بیشتر بین الاقوامی فورسز واپس چلی جائیں گی، تو افغانستان کا کیا بنے گا۔

اس ہفتے نیو یارک میں کونسل آن فارن ریلیشنز میں تقریر کرتے ہوئے، پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے افغانستان میں ذمہ دارانہ انداز میں تبدیلی لانے پر زور دیا۔ انھوں نے انتباہ کیا کہ امریکہ اور نیٹو کی فورسز کو افغانستان چھوڑنے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیئے۔

اس بارے میں شبہے کا اظہار کرتے ہوئے کہ امریکہ کی قیادت میں کی جانے والی کارروائی سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوئے ہیں، انھوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں جانب عسکریت پسندوں کے تشدد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ انتہا پسند ی پرمبنی نظریات کی شدت کو کم کیا جائے۔ میرے خیال میں اگر آپ گذشتہ دس برسوں پر نظر ڈالیں تو انتہا پسندوں کے نظریات میں اور زیادہ شدت پیدا ہو گئی ہے۔‘‘

وزیرِ خارجہ نے کہا کہ گذشتہ دو تین برسوں میں، پاکستان میں خود کش بمباری کی وارداتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور ہزاروں عام شہری اور سکیورٹی فورسز کے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔


پاکستانی وزیرخارجہ حنا ربانی کھر

انھوں نے سرحد پار سے پاکستانی اہداف پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے پر بھی تشویش ظاہر کی اور افغان نیشنل سکیورٹی فورس کے موئثر ہونے کے بارے میں شک و شبہے کا اظہار کیا۔ وزیرِ خارجہ کھر نے مزید کہا کہ افغان فوجیوں کی طرف سے نیٹو کے سپاہیوں پر حملوں میں اضافے سے، افغان فورسز کی کارکردگی کے بارے میں پاکستان کے شبہات کو تقویت ملتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’سرحد پار افغانستان کے اندر کے علا قے میں حالات دو سال پہلے کے مقابلے میں اور زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ پھر افغان فوجیوں کے امریکیوں پر حملوں کا سوال ہے۔ ممکن ہے کہ آپ ان سے خوفزدہ ہو جاتے ہوں لیکن ہم پاکستانی بھی اس صورتِ حال سے پریشان ہیں کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ادارے تعمیر کیے جا رہے ہیں، یعنی افغان نیشنل سکیورٹی فورسز، ان کی کارکردگی اتنی پیشہ وارانہ نہیں ہے جتنی آپ چاہتے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ہمارا اعتماد مضبوط نہیں ہوتا۔‘‘

لیکن افغان عہدے دار اور مبصرین ان اندیشوں کو مسترد کرتے ہیں کہ ان کے ملک میں پھر وہی افرا تفری پھیل جائے گی جو 1990ء کی دہائی میں سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ افغانستان کے نائب وزیر برائے تجارت، مزمل شنواری کہتے ہیں کہ افغانستان نے معیشت، سیاست، سکیورٹی اور انسانی حقوق کے شعبوں میں اچھی خاصی پیش رفت کی ہے۔ ان کے مطابق ’’ہم بہت پُر امید ہیں کہ دس سال پہلے کے مقابلے میں، ہمارے وسائل خاص طور سے انسانی وسائل میں خاصی ترقی ہوئی ہے۔ ہماری فورسز کا نظام بہتر ہو گیا ہے۔ افغانستان میں اقتصادی ترقی ہو رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ افغانستان ترقی کرے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ مستقبل میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گا۔ 2014ء کے بعد، افغانستان میں خوشحالی آئے گی۔

کابل میں مقیم غیر جانبدار سیاسی مبصر سید محمد اعظم یہ بات مانتے ہیں کہ 2014ء کے بعد کے دور میں افغان فورسز کو طالبان کی بغاوت سے نمٹنے میں سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ مسائل ملک میں آج بھی موجود ہیں جب جدید ترین ہتھیاروں سے لیس غیر ملکی فوجوں کی بہت بڑی تعداد ملک میں موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’عام خیال یہی ہے کہ لڑائی کے واقعات ہوتے رہیں گے لیکن ایسا نہیں ہوگا کہ افغان حکومت ختم ہو جائے، جیسا کہ سوویت یونین کی واپسی کے بعد ہوا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ 2015ء سے، اگلے دس برسوں کے لیے بین الاقوامی برادری نے فنڈز مہیا کر دیے ہیں جن سے قومی فوج اور پولیس بر قرار رہے گی۔ اس کے علاوہ، ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی کافی بجٹ موجود ہو گا۔‘‘

افغانستان میں امریکہ کے سفیر، جیمز کنننگھم نے جمعرات کے روز رپورٹروں کو بتایا کہ یہ بات اہم ہے کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ جلد از جلد امن مذاکرات شروع کرے۔

انھوں نے کہا کہ ’’ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ علاقے میں استحکام اور امن کے لیے ایک امن سمجھوتے کی ضرورت ہوگی جسے علاقے کے ملکوں کی حمایت حاصل ہو۔ اور ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے، نہ صرف پاکستان کے ساتھ، بلکہ علاقے کے دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی جو اس سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، اور حقیقی معنوں میں امن کے عمل کی حمایت کرنا چاہتے ہیں جس سے بالآخر افغانستان میں امن اور استحکام آئے گا۔‘‘

اُمید یہ ہے کہ گذشتہ سا ل کے آخر میں پاکستان نے دو درجن سے زیادہ افغان طالبان کو رہا کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا، اس سے باغیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد ملے گی۔

افغانستان نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے، اور امریکہ نے بھی امن اور مصالحت کی کوششوں کو فروغ دینےکے لیے افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعاون کی تعریف کی ہے۔ تاہم، ابھی تک مستقبل ِ قریب میں امن کا عمل شروع ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔