پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کے شعبے کا حصہ 21 فیصد سے زائد ہے۔
زرعی ماہرین اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ اس شعبے میں جدید آلات اور تکنیک کو فروغ دے کر پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ کے محکمہ زراعت کے عہدیدار جان کرو گزشتہ ہفتے پاکستان پہنچے اور یہاں اس شعبے سے منسلک حکام کے لیے ایک تربیتی نشست کا اہتمام کیا۔
اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جان کرو کا کہنا ہے کہ جانچ اور نگرانی کا نظام زرعی تجارت کے فروغ میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے بقول اس تربیتی پروگرام کا مقصد پاکستان میں پودوں کی صحت سے متعلق قواعد و ضوابط وضع کرنے والے حکام کی فنی صلاحتیوں کو بڑھانا اور اس شعبے کے امریکی ماہرین کے ساتھ اشتراک کو فروغ دینا ہے۔
جان کرو کا کہنا تھا کہ کیڑے مار زرعی ادویات کے جائزوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے بغیر تازہ پھلوں اور سبزیوں کی تجارت کو بین الاقوامی منڈی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا لہذا اس جانب توجہ دینے کی بھی خاص ضرورت ہے۔
اس موقع پر امریکی محکمہ زراعت کے نمائندے ڈاکٹر جیک مارٹنسن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے برآمد کی جانے والی زرعی اجناس کا معیار بہتر کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں اہم پیش رفت کی ہے۔
پاکستان میں زرعی تحقیق کے ادارے سے منسلک ڈاکٹر سدھیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بلا شبہ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار وافر مقدار میں ہوتی ہے لیکن ان کے بقول بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودی اور کسانوں کو اپنی فصل منڈیوں تک محفوظ طریقے سے پہنچانے کے بارے میں کم آگاہی کے وجہ سے 10 سے 30 فیصد اجناس ضائع ہو جاتی ہیں۔
"بین الاقوامی مارکیٹ معیار پر بہت زور دیتی ہے اس لیے ہمیں (اجناس کی ) صحیح درجہ بندی کے نظام کو متعارف کروانا ہو گا اور کسان میں یہ آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ معیاری طور پر بہتر چیزیں فروخت کرے گا تو اس کو زیادہ منافع ملے گا کیونکہ ہمارے جو کسان ہیں وہ پرانے روایتی طریقے استعمال کر رہے ہیں اور ان کا زور زیادہ تر ان ہی پر ہے"۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ معیار کی بنیاد پر پاکستان کی مختلف زرعی اجناس کو حالیہ برسوں میں بین الاقوامی منڈیوں میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا جس کا منفی اثر بلاشبہ ملکی برآمدات پر بھی ہوا۔
امریکہ کا ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی بھی پاکستان کے زرعی شعبے میں معاونت فراہم کرتا چلا آ رہا ہے جس میں کسانوں کی تربیت کے علاوہ آبپاشی کے لیے جدید نظام کی فراہمی بھی شامل ہے۔