پاکستان میں جماعت احمدیہ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے خلاف نفرت و تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بدھ کو جاری کی گئی سالانہ رپورٹ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے کہا گیا کہ ملک میں عدم برداشت کے رویوں اور تشدد کے واقعات کے سبب احمدیہ برادری مشکلات کا شکار ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ان حالات میں احمدیہ برادری کے لیے ایک پرامن ماحول میں اپنے عقائد پر عمل درآمد کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
سالانہ رپورٹ میں 12 دسمبر 2016 کو ایک ریلی کے دوران چکوال کے علاقے دوالمیال میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ پر حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ پولیس احمدیوں کے تحفظ میں ناکام رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ احمدیوں کو اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے علاقہ چھوڑنا پڑا، تاہم بعد ازاں فوج اور رینجرز نے امن بحال کیا مگر چکوال میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ تاحال سرکاری انتظامیہ کے قبضہ میں ہے اور ’’احمدی حق عبادت سے محروم ہیں۔‘‘
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین سینیٹر جاوید عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ ملک میں آباد تمام عقائد و مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
اُنھوں نے تسلیم کیا کہ انتہا پسند عناصر پاکستانی معاشرے کے لیے ایک خطرہ ہیں۔
’’جو انتہا پسند عناصر ہیں وہ معاشرے کے سب لوگوں کے خلاف ہیں وہ کسی ایک فرقہ، ایک جماعت کے خلاف نہیں ہیں۔۔۔ وہ تو سب کے خلاف ہیں اور ہم چاہ رہے ہیں کہ کوئی بھی انتہا پسند (سوچ رکھنے والا) جو اپنی مرضی کسی اور پر تھوپنا چاہتا ہے اس کو کچلنا چاہیئے، اسے ختم کرنا چاہیئے۔ ہر آدمی کو مذہبی آزادی ہونی چاہیئے جس طرح وہ چاہے وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارے ، یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ اُن کو تحفظ دے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے اور ہم (انہیں تحفظ) دیں گے۔‘‘
ترجمان جماعت احمدیہ کے مطابق سال 2016 کے دوران ربوہ میں، جہاں اُن کے بقول 95 فیصد احمدی آباد ہیں احمدیوں کو کسی قسم کے مذہبی اجتماع یا جلسہ کی اجازت نہ دی گئی۔
سینیٹر جاوید عباسی کہتے ہیں کہ پاکستان کا آئین تمام افراد کو اپنے عقائد و مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے اور اُن کے بقول حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
’’ہر انتہا پسند عنصر جو بھی ہو گا، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے اور اس ملک میں رہنے والے ہر آدمی کو اپنی مرضی کے مطابق اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیئے اور یہ بانی پاکستان محمد علی جنا ح نے پاکستان بنانے کے فوراً کہا تھا۔‘‘
ترجمان جماعت احمدیہ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں حکومت پر زور دیا کہ وہ مذہبی تعصبات کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرے، تاکہ پاکستان میں فرقہ واریت اور تعصب کا خاتمہ ہو سکے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے وضع کردہ قومی لائحہ عمل کے تحت ملک میں مذہب و مسلک کی بنیاد پر تشدد کرنے والوں سے بھی نمٹا جا رہا ہے۔
جب کہ حکام کا کہنا ہے کہ حال ہی میں شروع کیے گئے آپریشن ’ردالفساد‘ کے تحت پاکستان میں فساد کرنے والوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔