پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کو ہدایت کی کہ سوشل میڈیا پر انتہاپسندی، خلفشار اور انتشار پھیلانے والے عناصر کی روک تھام کے لیے ادارہ موثر اقدامات کرے۔۔
احسن اقبال کے بقول ’’ملک دشمن قوتیں‘‘ سوشل میڈیا کو آلہ بنا کر معاشرے میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔
وزیر داخلہ نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے متحرک کردار ادا کرے۔
پاکستان میں حال ہی میں سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات پر بحث کرنے والوں کے خلاف کارروائی دیکھی گئی ہے اور رواں ہفتے ہی انٹرنیٹ حقوق کے صارفین کے لیے کام کرنے والی دو غیر سرکاری تنظیموں نے اپنی ایک جائزہ رپورٹ میں کہا تھا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران پاکستانی حکومت نے مبینہ طور پر دو سو سے زائد ویب سائیٹس بلاک کیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ان میں وہ ویب سائٹس بھی شامل تھیں جن کے بارے میں حکام کے مطابق ایسا مواد موجود تھا جو مبینہ طور پر توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’بائٹس فار آل‘ سے وابستہ فرحان حسین کہتے ہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ کا حالیہ بیان باعث تشویش ہے کیوں کہ اس سے وہ افراد بھی زد میں آجاتے ہیں جو کسی بھی طور ملک دشمن تو نہیں لیکن وہ بعض ملکی معاملات پر بحث ضرور کرتے ہیں۔
’’دیکھیں پرتشدد انتہا پسندوں کے خلاف کون ایکشن نہیں چاہتا ۔۔۔ لیکن ماضی میں بہت مرتبہ ایسے ہوا ہے کہ وہ لوگ جو کہ حکومت سے صرف اختلاف رکھتے ہیں یا پھر وہ کسی بھی قسم کی بحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ کسی نے اگر سی پیک (پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے) کے اوپر اعتراض اٹھایا تو اس کو ریاست مخالف اور پتہ نہیں کیا کیا القاب سے نواز کے دھمکایا جاتا ہے۔‘‘
فرحان حسین کہتے ہیں کہ مبہم اور غیر واضح بیانات سے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
’’یہ اب اس طرح کی غیر واضح اور مبہم بیانات کا دور نہیں رہا ہے کہ آپ جو ہے کچھ بول دیں۔۔۔۔ بہت سوچ سمجھ کے بیان دینا چاہیئے۔‘‘
پاکستان میں اس سال کے اوائل میں سوشل میڈیا پر سرگرم پانچ بلاگرز لاپتا ہو گئے تھے جو بعد میں اپنے گھروں کو واپس تو آ گئے لیکن سماجی میڈیا پر سرگرم بہت سے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بلاگرز کے لاپتا ہونے کے بعد آن لائن رائے کا اظہار کرنے والے خوف کا شکار ہوئے ہیں۔
حکومت میں شامل عہدیدار کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی رائے کا اظہار کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے اور صرف اُن عناصر پر نظر رکھی جاتی ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے بے چینی پیدا یا شدت پسندی کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔