یکم دسمبر کو ایڈز کے مرض سے متعلق آگاہی کے عالمی دن کے موقع پر پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر صرف اُسی صورت قابو پایا جا سکتا ہے جب لوگ رضا کارانہ طور پر اس کی تشخیص اور علاج پر آمادہ ہوں۔
عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے سربراہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ایڈز سے متاثرہ انسان سے نہیں بلکہ مرض سے نفرت کی جائے۔
عہدیداروں کے مطابق ایڈز کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے سبب معاشرے میں عموماً اس مرض سے متاثرہ افراد کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اصغر ستی کہتے ہیں 2011 میں اُنھیں معلوم ہوا کہ وہ ایڈز سے متاثر ہیں اور اُن کے بقول وہ اس مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود اس لیے سامنے آئے تاکہ دیگر متاثر افراد کے لیے ایک مثال بن سکیں کہ ادویات اور احتیاط سے معمول کی زندگی گزارنا ممکن ہے۔
پاکستان ’نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام‘ کے سربراہ ڈاکٹر بصیر اچکزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں ’ایچ آئی وی‘ وائرس سے متاثرہ لگ بھگ ایک لاکھ افراد میں سے80 ہزار سے زائد افراد ایسے ہیں، جو ممکنہ طور پر ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہونے کے باوجود اپنی بیماری سے متعلق لاعلم ہیں۔
ڈاکٹر بصیر کہتے ہیں کہ مالی وسائل کی کمی سے ’ایچ آئی وی‘ وائرس اور ایڈز کے بارے میں آگاہی مہم متاثر ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے ’یواین ایڈز‘ کے پاکستان میں سربراہ ڈاکٹر ممدو ساکو بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں وسائل کی کمی ’ایچ آئی وی‘ وائرس اور ایڈز کے خلاف کوششوں کی راہ میں ایک مشکل ہے۔
’’پاکستان میں بنیادی طور پر ایچ آئی وی ایڈز کے خلاف کوششوں میں وسائل کی کمی ہے۔۔۔ لیکن گلوبل فنڈ، اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کی طرف سے امداد کے وعدے ہیں لیکن وہ ناکافی ہیں۔ گزشتہ سال ہمیں صرف 20 کروڑ ڈالر ملے۔ یہ بہت بڑا ملک ہے ہمیں پاکستان کے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے لیے ایک سے دو ارب ڈالر کی سالانہ امداد چاہیئے۔‘‘
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام اور اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کی طرف سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ’ایچ آئی وی‘ وائرس اور ایڈز کے بارے میں آگاہی کے لیے علمائے دین سے بھی مدد حاصل کی جائے۔
حکام کے مطابق پاکستان میں اس وقت مجموعی طور پر 21 ایسے مخصوص مراکز ہیں جہاں ’ایچ آئی وی‘ اور ایڈز سے متاثرہ افراد کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔
ایڈز ایک جان لیوا بیماری ہے جس کا وائرس عمومی طور پر غیر فطری جنسی روابط، غیر محفوظ انتقال خون اور استعمال شدہ سرنج کے دوبارہ استعمال سے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے۔ اس سے بچاؤ کے لیے ماہرین صحت احتیاط کو اہم قرار دیتے ہیں۔