ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی بدھ کو پاکستان پہنچے، جہاں اُنھوں نے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور قومی سلامتی کے مشیر لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خان جنجوعہ سے الگ الگ ملاقات کی۔
بدھ کی شام اسلام آباد میں سرتاج عزیز اور علی شمخانی نے مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ دونوں ملک دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
علی شمخانی کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک داعش کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس گروہ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تہران دیگر ممالک سے تعاون کے لیے تیار ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ خطے میں سلامتی کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال اور دہشت گردی کے خطرات سے متعلق اُمور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔
اُدھر ایک سرکاری بیان کے مطابق ناصر خان جنجوعہ اور علی شمخانی کے درمیان ملاقات میں بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال پر تبادلہ خیال کے علاوہ سلامتی سے متعلق مشترکہ مقاصد کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔
بیان کے مطابق پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ اس معاہدے پر عمل درآمد سے تہران پر عائد عالمی تعزیرات کا خاتمہ ہو سکے گا اور دونوں ملکوں کے تعلقات مزید فروغ پائیں۔
ملاقات میں افغانستان کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور ناصر خان جنجوعہ نے افغان امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں سے ایرانی عہدیدار کو آگاہ کیا۔
دونوں عہدیداروں نے پاکستان اور ایران کے تعلقات کو مزید وسعت دینے بشمول افغانستان سے متعلق اُمور پر تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔
ملاقات میں سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور ثقافتی روابط بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
ایران کے ذرائع ابلاغ کے مطابق علی شمخانی نے کہا کہ بطور پڑوسی ممالک کے سلامتی، دفاع اور سرحدی تحفظ سے متعلق پاکستان اور ایران کے مشترکہ خدشات ہیں۔
علی شمخانی کا کہنا تھا کہ علاقائی اُمور پر تہران اور پاکستان کے درمیان تعاون اہم ہے۔
ایران کے ذرائع ابلاغ کے مطابق علی شمخانی نے کہا ہے کہ یمن کے تنازع میں پاکستان کی طرف سے فوج نا بھیجنے کا فیصلہ قابل ستائش تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کو تنازعات کے حل میں مکالمے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور ایران کے قریبی تعلقات رہے ہیں تاہم دوطرفہ سرحد پر شرپسند عناصر کی کارروائیوں کے باعث کچھ تلخی بھی رہی۔