امریکی عہدے داروں نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان کی ISIکے ’حقانی نیٹ ورک ‘سے رابطے ہیں۔ جوائنٹ چیفز آف اسٹاف کے چیرمین ایڈمرل مائیک ملن اور وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے امریکی سینیٹ میں شہادت دیتے ہوئے اِن خیالات کا اظہار کیا۔
ایڈمرل ملن کا کہنا تھا کہHaqqani Networkکے پاکستانی حکومت سے گہرے رابطے ہیں۔اُن کے الفاظ میں:’حقانی نیٹ ورک ISIکے ایک واقعی بازو کی حیثیت سے کام کرتا ہے‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ، اُس کے باوجود بھی، امریکہ کو پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ لیکن، اُنھوں نے خبردار کیا کہ تعلقات اور پاکستان کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
اُن کے بقول، تشدد برآمد کرکے اُنھوں نے اپنی اندرونی سکیورٹی اور خطے میں اپنی پوزیشن کو نقصان پہنچایا ہے۔ اِنھوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کو خراب کیا ہے اور اپنی معاشی بہتری کےلیے خطرہ پیدا کردیا ہے اور صرف اِس پالیسی کے ترک کیے جانے سے ہی پاکستان کے مثبت مستقبل کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے بھی اِس سماعت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ، ’ ہم دہشت گردوں کو اُن محفوظ پناہ گاہوں میں رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے جہاں سے وہ حملے کریں اور ہمارے فوجیوں کو ہلاک کریں‘۔
پاکستان اِن تمام الزامات کی تردید کرتا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ، ’ ہم حقانی نیٹ ورک یا پروکسی وارکے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ إِس سے صرف امن کے دشمنوں کو فائدہ ہوگا‘۔
اتوار کو ’وائس آف امریکہ‘ کے ’اِن دِی نیوز‘ پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے، مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے سینیٹر، طارق عظیم کا کہنا تھا کہ اِس معاملے پر وزیر اعظم کی طرف سےمختلف سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا اقدام اہمیت کا حامل ہے، جس سے قبل فوج کے کور کمانڈروں کا اجلاس ہو چکا ہے۔ قومی پالیسی کی تشکیل کے سلسلے میں سوال پر، سینیٹر طارق عظیم کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہے آیا ہمارے قائدین اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر پاکستان کے مفاد میں کچھ کر پائیں گے۔
اُن کے بقول یہ ایک غلط تاثر ہے کہ الزامات لگنے کے باوجود پاکستان خاموشی سے سب کچھ سنتا رہے گا۔ ’ہم ایک آزاد ملک ہیں۔۔ہمیں متحد ہوکر ملک پر لگنے والے الزامات کا جوا ب دینا چاہیئے۔۔۔اور تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت لے کر پاکستان کی بہتری کا سوچیں‘۔
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر، زاہد خان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ’سیاسی پوائنٹ اسکورنگ‘ کا نہیں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اتوار کو ساری سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس بلا کر سب پر زور دیا کہ اپنے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر ایک قومی پالیسی تشکیل دی جائے، تاکہ پاکستان کے اوپر لگنے والے الزامات کا تدارک کیا جاسکے۔
سینیٹر زاہد خان کے بقول، اگر ہماری صفوں میں ایسے لوگ ہیں جو ہمسایہ ممالک جاکر دہشت گردی کرتے ہیں تو ہمیں اِس معاملے پر ایک قومی پالیسی بنانی ہوگی، تاکہ اِس کا ازالہ ہو سکے اور ہم دنیا میں سرخرو ہوں۔ ہم قطعاً اِس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ کوئی بھی پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرے۔
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والےسینیٹر راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ یہ بات وسیع تر مفاد میں ہے کہ ایک قومی پالیسی وضع کی جائے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اُن کی جماعت کے سربراہ نے منگل کو ایک اجلاس طلب کیا ہے جِس میں قومی اہمیت کےتمام معاملات پر غور و غوض ہوگا اورپارٹی اپنا مؤقف سامنے لائے گی۔
راجہ ظفر الحق نےکہا کہ ضرورت اِس بات کی تھی کہ اِس معاملے پر بہت پہلے ایک قومی پالیسی تشکیل دی جاتی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: