پاکستان اور بھارت نے خطے کے ایک اہم اتحاد "شنگھائی تعاون تنظیم" کے باقاعدہ مستقل رکن بننے کے لیے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں اور جنوبی ایشیا کی ان دو ایٹمی قوتوں کی اس تنظیم میں شمولیت کو خطے میں سلامتی و خوشحالی کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
تنظیم کے تاشقند میں ہونے والے اجلاس میں معاہدوں پر دستخط ہوئے اور اس موقع پر پاکستان کے صدر ممنون حسین اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی وہاں موجود تھے۔
جلد ہی دونوں ملکوں کو تنظیم کے مستقل رکن کا درجہ باضابطہ طور پر تفویض کر دیا جائے گا۔
فی الوقت اس تنظیم کے چھ مستقل ارکان ہیں جن میں چین، روس، قازقستان، ازبکستان، تاجکستان اور کرغزستان شامل ہیں اور اس تنظیم کا بنیادی مقصد خطے میں اقتصادی اور سلامتی کے معاملات میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم 2001ء میں قائم ہوئی تھی اور پاکستان اس میں 2005ء میں بطور مبصر شامل ہوا۔ اس نے 2010ء میں مستقل رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔
پاکستان کا موقف ہے کہ تنظیم کی مستقل رکنیت اس کے قومی اہداف کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ہے جس سے اسے سلامتی سمیت مختلف شعبوں میں دیگر رکن ممالک کے ساتھ کام کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم حاصل ہو سکے گا۔
پاکستان کے ایک سابق سفارتکار آصف ایزدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مستقل رکنیت ملنے سے پاکستان کو ایک اہم اتحاد میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملے گا اور وہ سفارتکاری کے ذریعے اپنے موقف کو زیادہ بہتر انداز میں دنیا تک پہنچا سکے گا۔
بھارت اور پاکستان ہمسائے ہونے کے ساتھ ساتھ روایتی حریف بھی ہیں اور ان کے درمیان روز اول سے اتار چڑھاؤ کے شکار تعلقات میں کشیدگی کا عنصر ہی غالب رہا ہے۔
تنظیم میں ان دونوں کی بطور مستقل رکن شمولیت سے باہمی تعلقات میں کس حد تک بہتری آسکتی ہے، اس بارے میں سابق سفارتکار آصف ایزدی کہتے ہیں۔
"میرا نہیں خیال شنگھائی تعاون تنظیم دو طرفہ تعلقات کے معاملات میں پڑے گی لیکن تنظیم میں دیگر دو بڑے ملکوں چین اور روس کے شامل ہونے سے یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات تھوڑے قابو میں رہیں جو کہ میں سمجھتا ہوں اس کا ایک اچھا پہلو ہو سکتا ہے۔"
دونوں ملکوں کی طرف سے رکنیت کے لیے معاہدوں پر دستخط سے پہلے روس کے صدر ولادیمر پوٹن کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی شمولیت تنظیم کی علاقائی اور بین الاقوامی مطابقت کو بڑھائے گی۔