پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز: کھلاڑی ملتان کے گرم موسم کا مقابلہ کیسے کریں گے؟

آئی سی سی سپر لیگ کے پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان کی ٹیم اس وقت دسویں نمبر پر ہے جب کہ ویسٹ انڈیز چوتھے نمبر پر ہے۔

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیمیں جب بدھ کی سہ پہر چار بجے ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں ون ڈے میچ کے لیے اُتریں گی تو اس وقت جنوبی پنجاب کے اس شہر کا درجہ حرارت تقریباً 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہونے کا امکان ہے۔

جون کے مہینے میں سہ پہر کے وقت کرکٹ کھیلنا جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور وہ بھی ملتان جیسے شہر میں جہاں کی گرمی کا سنتے ہی پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔تاہم ملتان کے باسی خوش ہیں کہ 14 برس بعد یہاں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے کھل گئے ہیں۔

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تین ایک روزہ میچوں کی یہ سیریز اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہ آئندہ برس بھارت میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے آئی سی سی سپر لیگ کا حصہ ہے۔

اس سپر لیگ کے تحت میزبان ملک بھارت کے علاوہ سات دیگر ٹیمیں براہ راست ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کریں گی جب کہ باقی ٹیموں کو کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑے گا۔

آئی سی سی سپر لیگ کے پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان کی ٹیم اس وقت دسویں نمبر پر ہے جب کہ ویسٹ انڈیز چوتھے نمبر پر ہے۔

ویسٹ انڈیز کی ٹیم گزشتہ برس دسمبر میں ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ میچز کی سیریز کھیلنے پاکستان آئی تھی۔تاہم کھلاڑیوں میں کرونا وائرس کی تشخیص کے بعد ٹی ٹوئنٹی سیریز کے بعد ٹیم دورہ اُدھورا چھوڑ کر واپس روانہ ہو گئی تھی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس وقت اعلان کیا تھا کہ ون ڈے میچز کی سیریز جون میں کھیلی جائے گی، تاہم وینیو کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

ملتان کا ہی انتخاب کیوں؟

پاکستان میں لاہور، کراچی، راولپنڈی اور ملتان ہی ایسے کرکٹ اسٹیڈیم جہاں بین الاقوامی کرکٹ میچز منعقد کرائے جا سکتے ہیں۔ اس سے قبل پشاور، فیصل آباد، حیدر آباد، سیالکوٹ، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ کے کرکٹ اسٹیڈیمز پر بھی بین الاقوامی میچز ہوتے رہے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق لاہور کے قذافی اسٹیڈیم اور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں نئی پچز تیار کی جا رہی ہیں جس میں کافی وقت لگتا ہے جب کہ ملک کی سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں میچز نہیں کرائے گئے۔

پاکستان، ویسٹ انڈیز سیریز کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے میڈیا منیجر احسن ناگی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملتان میں بلاشبہ گرمی ہے، لیکن سہ پہر چار بجے کے بعد بتدریج اس کی شدت کم ہو جاتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پیر کو ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے سہ پہر پانچ بجے سے رات نو بجے تک ٹریننگ کی اور اس دوران کھلاڑیوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

'ملتان کی گرمی میں کرکٹ کھیلنا کھلاڑیوں کے لیے مشکل ہو گا'

کرکٹ کی معروف ویب سائٹ 'کرک انفو' کے پاکستان میں نمائندے عمر فاروق کہتے ہیں کہ اس سیریز کے انعقاد کے لیے زیادہ سوچ بچار نہیں کی گئی۔ کرکٹ بورڈ کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کھلاڑیوں کا خیال رکھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں آف سیزن سیریز نہیں ہوتی۔ان کے بقول متحدہ عرب امارات میں بھی گرم موسم میں سیریز ہوتی ہے لیکن امارات میں ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے لیکن ملتان میں ان دنوں شدید گرمی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ شاداب خان کو حال ہی میں انجری ہوئی تھی جب کہ شاہین شاہ آفریدی بھی ٹائیفائید بخار کا شکار ہوئے تھے۔ لہذٰا شدید گرم موسم میں کھیلنے سے کھلاڑیوں کی فٹنس متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

بائیس کروڑ کا ملک اور بین الاقوامی کرکٹ اسٹیڈیم صرف چار کیوں؟

سینئر سپورٹس تجزیہ کار عبدالماجد بھٹی کہتے ہیں کہ پی سی بی کو اب یہ سوچنا ہو گا کہ 22 کروڑ آبادی کا ملک جہاں کرکٹ ہی سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے، وہاں صرف چار کرکٹ اسٹیڈیم ہی بین الاقوامی کرکٹ کے لیے آپریشنل کیوں ہیں۔

اُن کے بقول اگر ماضی میں کرکٹ اسٹیڈیم بنانے کی طرف توجہ دی گئی ہوتی تو ملتان کے اس گرم موسم کے بجائے کسی اور گراؤنڈ میں یہ میچز ہو سکتے تھے۔

عبدالماجد بھٹی نے بتایا کہ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم اور کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم پی سی بی کی ملکیت ہیں جب کہ پنڈی اور ملتان کے اسٹیڈیم کی دیکھ بھال مقامی ضلعی انتظامیہ کرتی ہے۔اُن کے بقول جب بھی ملتان اور پنڈی میں انٹرنیشنل میچز کرائے جاتے ہیں تو پی سی بی کو ان اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش پر خطیر رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔

عبدالماجد بھٹی کہتے ہیں کہ پاکستان ایبٹ آباد، مری یا ان جیسے دیگر پرفضا مقامات پر اسٹیڈیمز تیار کر سکتا ہے، تاکہ اگر آف سیزن میں کرکٹ کھیلنی پڑے تو یہاں میچز کرائے جا سکیں۔

ترجمان پی سی بی احسن ناگی کہتے ہیں کہ میچ سے قبل دونوں ٹیموں کے کپتان میچ ریفری سے ملاقات کرتے ہیں جس میں پلینگ کنڈیشنز پر بھی بات ہوتی ہے۔اُن کے بقول آسٹریلیا سمیت دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی گرم موسم میں سیریز ہوتی ہے اور کھلاڑی آئس کالر پہن کر بھی میدان میں اُترتے رہے ہیں جب کہ گرم موسم میں پانی کے وقفوں میں بھی میچ ریفری کی اجازت سے اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تین ایک روزہ میچز کی سیریز کے لیے میچز بالترتیب آٹھ، 10 اور 12 جون کو کھیلے جائیں گے۔