پاکستان میں زیر حراست ان طالبان کی رہائی کا اعلان حال ہی میں افغان صدر حامد کرزئی کے دورہ اسلام آباد کے بعد کیا گیا ہے۔
اسلام آباد —
افغانستان میں مصالحت کے عمل میں پیش رفت کے لیے پاکستان نے مزید سات افغان طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔
وزارتِ خارجہ سے ہفتہ کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جن طالبان قیدیوں کو رہا کیا گیا اُن میں منصور داد اللہ، سید ولی، عبدالکریم منان، کریم آغا، سحر گل، گل محمد اور محمد ذئی شامل ہے۔
منصور داداللہ اہم طالبان کمانڈر ملا داد اللہ کا چھوٹا بھائی بتایا جاتا ہے۔ ملا داد اللہ 2007ء میں افغانستان میں مارا گیا تھا۔
پاکستان میں زیر حراست ان طالبان کی رہائی کا اعلان اگست کے اواخر میں افغان صدر حامد کرزئی کے دورہ اسلام آباد کے بعد کیا گیا ہے۔
اس دورے میں صدر کرزئی نے اعلٰی امن کونسل اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے پاکستان کو کردار ادا کرنے پر زور دیا تھا۔
پاکستان میں گزشتہ سال 26 افغان طالبان کو مرحلہ وار رہا کیا گیا تھا۔ ان میں طالبان دورِ حکومت میں صوبہ ہلمند کے سابق گورنر عبدالباری، سابق وزیر انصاف نورالدین ترابی، کابل کے سابق گورنر ملا داؤد جان، سابق وزیر اللہ داد طبیب اور میر احمد گل شامل تھے۔
افغان طالبان کرزئی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرتے آئے ہیں۔
اگرچہ مبصرین طالبان قیدیوں کی رہائی کو افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے ایک اہم قدم سمجھتے ہیں، لیکن بعض ناقدین کا ماننا ہے کہ رہائی کا یہ عمل مصالحت کی کوششوں میں خاطر خواہ مدد فراہم نہیں کرے گا۔
کابل میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رہائی کے عمل کی اہمیت محض ’’علامتی‘‘ ہے۔
’’طالبان نے کئی مرتبہ یہ کہا ہے کہ ہم کرزئی صاحب کے ساتھ بات چیت میں شامل نہیں ہوں گے کیوں کہ اُصولی طور پر وہ کرزئی حکومت، افغان پارلیمان اور آئین کو تسلیم نہیں کرتے ... اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہم امریکہ سے بات چیت کے لیے تیار ہیں جو وہاں اتحادی افواج کی قیادت کر رہا ہے۔‘‘
رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ صدر کرزئی کی کوشش ہے کہ کسی بھی صورت میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات کا آغاز کیا جائے، تاکہ وہ عہدہِ صدارت کے آخری دنوں میں ایسی کسی پیش رفت کو اپنی حکومت کی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر سکیں۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے افغان صدر کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ پڑوسی ملک میں دیر پا امن کے قیام کے لیے اسلام آباد اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔
افغانستان میں طالبان دھڑوں اور افغان حکومت کے درمیان جاری مفاہمت کی کوششوں کی کامیابی کے لیے پاکستان کی حمایت کو انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
وزارتِ خارجہ سے ہفتہ کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جن طالبان قیدیوں کو رہا کیا گیا اُن میں منصور داد اللہ، سید ولی، عبدالکریم منان، کریم آغا، سحر گل، گل محمد اور محمد ذئی شامل ہے۔
منصور داداللہ اہم طالبان کمانڈر ملا داد اللہ کا چھوٹا بھائی بتایا جاتا ہے۔ ملا داد اللہ 2007ء میں افغانستان میں مارا گیا تھا۔
پاکستان میں زیر حراست ان طالبان کی رہائی کا اعلان اگست کے اواخر میں افغان صدر حامد کرزئی کے دورہ اسلام آباد کے بعد کیا گیا ہے۔
اس دورے میں صدر کرزئی نے اعلٰی امن کونسل اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے پاکستان کو کردار ادا کرنے پر زور دیا تھا۔
پاکستان میں گزشتہ سال 26 افغان طالبان کو مرحلہ وار رہا کیا گیا تھا۔ ان میں طالبان دورِ حکومت میں صوبہ ہلمند کے سابق گورنر عبدالباری، سابق وزیر انصاف نورالدین ترابی، کابل کے سابق گورنر ملا داؤد جان، سابق وزیر اللہ داد طبیب اور میر احمد گل شامل تھے۔
افغان طالبان کرزئی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرتے آئے ہیں۔
اگرچہ مبصرین طالبان قیدیوں کی رہائی کو افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے ایک اہم قدم سمجھتے ہیں، لیکن بعض ناقدین کا ماننا ہے کہ رہائی کا یہ عمل مصالحت کی کوششوں میں خاطر خواہ مدد فراہم نہیں کرے گا۔
کابل میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رہائی کے عمل کی اہمیت محض ’’علامتی‘‘ ہے۔
’’طالبان نے کئی مرتبہ یہ کہا ہے کہ ہم کرزئی صاحب کے ساتھ بات چیت میں شامل نہیں ہوں گے کیوں کہ اُصولی طور پر وہ کرزئی حکومت، افغان پارلیمان اور آئین کو تسلیم نہیں کرتے ... اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہم امریکہ سے بات چیت کے لیے تیار ہیں جو وہاں اتحادی افواج کی قیادت کر رہا ہے۔‘‘
رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ صدر کرزئی کی کوشش ہے کہ کسی بھی صورت میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات کا آغاز کیا جائے، تاکہ وہ عہدہِ صدارت کے آخری دنوں میں ایسی کسی پیش رفت کو اپنی حکومت کی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر سکیں۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے افغان صدر کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ پڑوسی ملک میں دیر پا امن کے قیام کے لیے اسلام آباد اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔
افغانستان میں طالبان دھڑوں اور افغان حکومت کے درمیان جاری مفاہمت کی کوششوں کی کامیابی کے لیے پاکستان کی حمایت کو انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔