کل جماعتی کانفرنس کا افتتاحی خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ حکومتوں کے آنے جانے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
اسلام آباد —
پاکستان میں ایک دہائی سے جاری شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل مرتب کرنے کی غرض سے جمعرات کو اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس ہوئی۔
عوامی نیشنل پارٹی کی (اے این پی) کے سربراہ اسفندیا ولی نے کل جماعتی کانفرنس کے اختتام پر اعلامیہ پڑھتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں موجود تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی کسی ایک صوبے یا جماعت کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ملک کی بقاء اور ترقی دہشت گردی کے مسئلے کے صیحح حل سے ممکن ہے۔
اسفندیار ولی نے کہا کہ اجلاس میں متفقہ طور پر یہ طے پایا ہے کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے مسئلے کا حل ملکی آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیئے اور قیام امن کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ کانفرنس کے شرکا نے دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کی فوری طور پر مالی امداد کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نشست اس عمل کی کڑی ہے جس کے تحت شدت پسندی اور انتہا پسندی کی بیخ کنی کرکے ملک میں امن و امان قائم کیا جائے۔
عوامی نیشنل پارٹی میں ملک کی تقریباً 27 مذہبی، سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے رہنماء اور نمائندے شرکت کی۔
اسفندیار نے بظاہر اس تاثر کو رد کرنے کی بھی کوشش کی کہ شاید ان کی جماعت انتخابات سے پہلے اس کانفرنس کے انعقاد سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
’’ہم جس مسئلے کی بات کر رہے ہیں وہ انتخابات سے ختم ہونے والا نہیں اور انتخابات سے جو بھی حکومت بنے گی اسے بھی اس کے حل کے لیے قومی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ حکومتیں آئیں گی اور جائیں گی لیکن اپنے ملک اور عوام کے مستقبل کے لیے جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی شمال مغربی خیبر پختونخواہ کی حکمران پارٹی بھی ہے جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی نے اس خطے کی معیشت اور معاشرتی اقدار پر شدید منفی اثرات مرتب کیے۔
اے این پی کی کل جماعتی کانفرنس ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو مذاکرات کی مشروط پیش کش کر رکھی ہے۔ حزب اختلاف کی بیشتر جماعتیں طالبان سے بات چیت کی حمایت کر رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قوت کا استعمال ملک میں مزید انتشار اور بدامنی کا باعث بنے گا اس لیے مذاکرات کے ذریعے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے حل تلاش کرنا ہو گا اور اس میں تمام فریقین کی شمولیت لازمی ہے۔
’’اب ڈو مور کہنا بند کیا جائے۔ ہمیں اس کا حل معلوم ہے۔ ہمیں کھلا ہاتھ دیا جائے اور زمینی حقائق کے مطابق اس مسئلے کو حل کیا جائے تو یہ (دہشت گردی) ختم ہو سکتی ہے۔‘‘
پاکستان علماء کونسل کے طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ طالبان مذاکرات سے پہلے جنگ بندی کا اعلان کرکے اپنی اس عمل سے متعلق اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
’’اگر وہ اسلامی و شرعی نظام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں تو جاری رکھے۔ ہم بھی اسی کے نفاذ کے خواہاں ہیں لیکن یہ مار دھاڑ بند ہونی چاہیئے۔‘‘
وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کے مطابق دہشت گردی کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور عارضی اقدامات سے اس لعنت سے نجات ممکن نہیں۔
’’ہمیں محلوں میں عوامی چوکیداری قائم کرنا ہوگی۔ کیا تمام سیاسی جماعتیں اپنے کونسلروں اور ناظمیں کا نیٹ ورک شدت پسندوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو جس طرح فوجی کارروائیوں سے متوقع نتائج حاصل نہ ہو سکے مذاکرات سے بھی نہ ہوسکیں گے۔‘‘
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ملکی آئین و قانون کے تحت مذاکرات کی حامی ہے اور قوت کا استعمال ہمیشہ آخری حربہ رہا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی (اے این پی) کے سربراہ اسفندیا ولی نے کل جماعتی کانفرنس کے اختتام پر اعلامیہ پڑھتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں موجود تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی کسی ایک صوبے یا جماعت کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ملک کی بقاء اور ترقی دہشت گردی کے مسئلے کے صیحح حل سے ممکن ہے۔
اسفندیار ولی نے کہا کہ اجلاس میں متفقہ طور پر یہ طے پایا ہے کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے مسئلے کا حل ملکی آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیئے اور قیام امن کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ کانفرنس کے شرکا نے دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کی فوری طور پر مالی امداد کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نشست اس عمل کی کڑی ہے جس کے تحت شدت پسندی اور انتہا پسندی کی بیخ کنی کرکے ملک میں امن و امان قائم کیا جائے۔
عوامی نیشنل پارٹی میں ملک کی تقریباً 27 مذہبی، سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے رہنماء اور نمائندے شرکت کی۔
اسفندیار نے بظاہر اس تاثر کو رد کرنے کی بھی کوشش کی کہ شاید ان کی جماعت انتخابات سے پہلے اس کانفرنس کے انعقاد سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
’’ہم جس مسئلے کی بات کر رہے ہیں وہ انتخابات سے ختم ہونے والا نہیں اور انتخابات سے جو بھی حکومت بنے گی اسے بھی اس کے حل کے لیے قومی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ حکومتیں آئیں گی اور جائیں گی لیکن اپنے ملک اور عوام کے مستقبل کے لیے جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی شمال مغربی خیبر پختونخواہ کی حکمران پارٹی بھی ہے جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی نے اس خطے کی معیشت اور معاشرتی اقدار پر شدید منفی اثرات مرتب کیے۔
اے این پی کی کل جماعتی کانفرنس ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو مذاکرات کی مشروط پیش کش کر رکھی ہے۔ حزب اختلاف کی بیشتر جماعتیں طالبان سے بات چیت کی حمایت کر رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قوت کا استعمال ملک میں مزید انتشار اور بدامنی کا باعث بنے گا اس لیے مذاکرات کے ذریعے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے حل تلاش کرنا ہو گا اور اس میں تمام فریقین کی شمولیت لازمی ہے۔
’’اب ڈو مور کہنا بند کیا جائے۔ ہمیں اس کا حل معلوم ہے۔ ہمیں کھلا ہاتھ دیا جائے اور زمینی حقائق کے مطابق اس مسئلے کو حل کیا جائے تو یہ (دہشت گردی) ختم ہو سکتی ہے۔‘‘
پاکستان علماء کونسل کے طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ طالبان مذاکرات سے پہلے جنگ بندی کا اعلان کرکے اپنی اس عمل سے متعلق اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
’’اگر وہ اسلامی و شرعی نظام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں تو جاری رکھے۔ ہم بھی اسی کے نفاذ کے خواہاں ہیں لیکن یہ مار دھاڑ بند ہونی چاہیئے۔‘‘
وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کے مطابق دہشت گردی کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور عارضی اقدامات سے اس لعنت سے نجات ممکن نہیں۔
’’ہمیں محلوں میں عوامی چوکیداری قائم کرنا ہوگی۔ کیا تمام سیاسی جماعتیں اپنے کونسلروں اور ناظمیں کا نیٹ ورک شدت پسندوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو جس طرح فوجی کارروائیوں سے متوقع نتائج حاصل نہ ہو سکے مذاکرات سے بھی نہ ہوسکیں گے۔‘‘
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ملکی آئین و قانون کے تحت مذاکرات کی حامی ہے اور قوت کا استعمال ہمیشہ آخری حربہ رہا ہے۔