صحافی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونے کا حکم

فائل فوٹو

پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ایک صحافی کو 7 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا ہے۔ ان کے خلاف عدالت میں گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے بعض ارکان کے خلاف میبنہ طور جھوٹی خبر شائع کرنے کامقدمہ زیر سماعت ہے۔

انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کے جج کی طرف سے جمعہ کو مقامی اخبار میں ایک نوٹس شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ ملزم شبیر سہام کے خلاف عدالت میں انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ درج ہے لیکن وہ متعدد بار طلب کرنے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوا اور اب اسے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ 7 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہو کر مقدمے کا سامنا کریں بصورت دیگر ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

مقامی انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے صحافی شبیر سہام نے نومبر 2016ء میں ایک خبر شائع کی جس میں انہوں نے گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی اور بعض دیگر افراد پر خواتین کی ٹریفکنگ کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد کیے۔

اس پر گلگت بلتستان کے حکام کی شکایت پر پولیس نے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ایک جھوٹی خبر شائع ہونے پر گلگت بلتستان کے قانون ساز اسمبلی کے بعض ارکان کی ساکھ متاثر ہوئی۔

صحافیوں کے حقوق کی نمائندہ تنظیموں کی طرف سے شبیر سہام کے خلاف مقدمے کو واپس لیے جانے کے مطالبات سامنے آتے رہے جب کہ اس بارے میں حکومتی شخصیات کے ساتھ ان تنظیموں کے عہدیداروں کے مذاکرات بھی ہوئے لیکن یہ معاملہ تاحال عدالت میں زیر التوا ہے۔

انسانی حقوق کے موقر ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ مہدی حسن نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شخص کے خلاف انسداد دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے پہلے اس کی شفاف تفتیش ہونی چاہیے۔

"بغیر کسی تحقیقات کے کسی کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کا مقدمہ درج نہیں کرنا چاہیے یہ صرف صحافی کی بات نہیں ہے ایچ آر سی پی کے پلیٹ فارم سے ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ جن لوگوں کو دہشت گرد کہہ کر مار دیا جاتا ہے یا گرفتار کیا جاتا ہے یہ مناسب نہیں ہے یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔"

گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کے سیاسی مشیر شمس میر نے اس معاملے پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہ متاثرہ فریق کو قانونی کارروائی کرنے کا حق حاصل ہے۔

"اس میں جو فریق متاثر ہوئے ہیں ان کو اس خبر سے خفت اٹھانی پڑی اور وہ اس کی تلافی کے لیے قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں۔۔۔۔اب یہ معاملہ عدالت میں ہے اور ہم سجھتے ہیں کہ عدالت اس (معاملے) کی تحقیات کروا سکتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ بے گناہ ہیں تو انصاف ہو گا۔ "

تاہم مہدی حسن نے کہا کہ صحافیوں کی نمائندہ تنظمیوں اور سرگرم کارکنوں کو ناصرف اس معاملےکے خلاف آواز بلند کرنے چاہیے بلکہ اس مقدمے میں ملزم صحافی کا قانونی دفاع بھی کرنا چاہیے۔