بدھ کو شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو فضائی کارروائی میں نشانہ بنایا گیا اور ہلاک ہونے والوں میں غیر ملکی جنگجوؤں کے علاوہ بعض اہم شدت پسند کمانڈر بھی شامل ہیں۔
پشاور —
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی جیٹ طیاروں کی مدد سے کی گئی کارروائی میں کم ازکم 60 مشتبہ شدت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں غیر ملکی جنگجو اور بعض اہم شدت پسند کمانڈر بھی شامل ہیں۔
بیان کے مطابق لڑاکا طیاروں کی بمباری میں شدت پسندوں کے متعدد ٹھکانے اور ان کے زیر استعمال اسلحہ بارود کے ذخیرے تباہ اور ان کارروائیوں میں کم ازکم 30 شدت پسند زخمی بھی ہوئے۔
پاکستانی فوج کے مطابق بدھ کو ہونے والی کارروائی میں رواں ماہ پشاور میں اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کے کیمپ پر حملے، مہمند اور باجوڑ میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کے نمائندگی کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ نواز شریف انتظامیہ نے رواں سال کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن بحال کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں۔
لیکن طالبان شوریٰ اور سرکاری مذاکراتی کمیٹی میں صرف ایک ہی براہ راست ملاقات کے بعد یہ عمل تعطل کا شکار ہے۔
طالبان نے مذاکراتی عمل کے لیے یکم مارچ کو ایک ماہ کے لیے اپنی پرتشدد کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا جس میں بعد ازاں دس روز کی توسیع کر دی گئی۔ تاہم اپریل کے وسط میں شدت پسندوں نے مذاکراتی عمل میں حکومت پر غیر سنجیدگی کا الزام عائد کرتے ہوئے فائربندی میں مزید توسیع سے انکار کردیا تھا۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن کسی بھی دہشت گرد حملے کا جواب بھی دیا جائے گا۔
رواں ماہ خیبر پختونخواہ اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت ایک درجن کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے گزشتہ ہفتے ہی یہ عندیہ دیا تھا کہ مذاکراتی سلسلہ جلد بحال ہو گا تاہم انھوں نے اس کے بامعنی ہونے پر زور دیا تھا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں غیر ملکی جنگجو اور بعض اہم شدت پسند کمانڈر بھی شامل ہیں۔
بیان کے مطابق لڑاکا طیاروں کی بمباری میں شدت پسندوں کے متعدد ٹھکانے اور ان کے زیر استعمال اسلحہ بارود کے ذخیرے تباہ اور ان کارروائیوں میں کم ازکم 30 شدت پسند زخمی بھی ہوئے۔
پاکستانی فوج کے مطابق بدھ کو ہونے والی کارروائی میں رواں ماہ پشاور میں اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کے کیمپ پر حملے، مہمند اور باجوڑ میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کے نمائندگی کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ نواز شریف انتظامیہ نے رواں سال کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن بحال کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں۔
لیکن طالبان شوریٰ اور سرکاری مذاکراتی کمیٹی میں صرف ایک ہی براہ راست ملاقات کے بعد یہ عمل تعطل کا شکار ہے۔
طالبان نے مذاکراتی عمل کے لیے یکم مارچ کو ایک ماہ کے لیے اپنی پرتشدد کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا جس میں بعد ازاں دس روز کی توسیع کر دی گئی۔ تاہم اپریل کے وسط میں شدت پسندوں نے مذاکراتی عمل میں حکومت پر غیر سنجیدگی کا الزام عائد کرتے ہوئے فائربندی میں مزید توسیع سے انکار کردیا تھا۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن کسی بھی دہشت گرد حملے کا جواب بھی دیا جائے گا۔
رواں ماہ خیبر پختونخواہ اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت ایک درجن کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے گزشتہ ہفتے ہی یہ عندیہ دیا تھا کہ مذاکراتی سلسلہ جلد بحال ہو گا تاہم انھوں نے اس کے بامعنی ہونے پر زور دیا تھا۔