ہنگو ڈرون کارروائی، پاکستان فوج کے سربراہ کی مذمت

فائل

پینٹاگان کے ایک ترجمان نے بدھ کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ امریکی محکمہٴ دفاع نے حالیہ دِنوں پاکستان میں کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ سی آئی اے پاکستان میں اِن مخصوص ڈرون کارروائیوں پر نگاہ رکھتا ہے۔ لیکن، پاکستان کے ساتھ طویل مدت سے جاری انتظام کے تحت، ادارہ اِن کی تصدیق نہیں کیا کرتا

پاکستان فوج کے سربراہ نے مشتبہ امریکی ڈرون کارروائی پر سخت نکتہ چینی کی ہے، جس میں حقانی نیٹ ورک کے دو اہم کمانڈر ہلاک ہوئے، جو اِس ہفتے کے اوائل میں پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں کی گئی۔

پاکستان کے سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ منگل کی علی الصبح ہونے والے اس میزائل حملے میں شدت پسندوں کا مشتبہ ٹھکانہ تباہ کیا گیا، جو ضلع ہنگو کے دور افتادہ علاقے میں واقع تھا۔

عینی شاہدین کے اطلاع کے مطابق، کی گئی کارروائی میں دو افراد ہلاک ہوئے، جن میں کمانڈر ابو بکر بھی شامل تھے، جو طالبان سے منسلک بدنام نیٹ ورک میں شامل تھے۔

پینٹاگان کے ایک ترجمان نے بدھ کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ امریکی محکمہٴ دفاع نے حالیہ دِنوں پاکستان میں کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ سی آئی اے پاکستان میں اِن مخصوص ڈرون کارروائیوں پر نگاہ رکھتا ہے۔ لیکن، پاکستان کے ساتھ طویل مدت سے جاری انتظام کے تحت، ادارہ اِن کی تصدیق نہیں کیا کرتا۔

گذشتہ سالوں کے دوران، چند ڈرون حملوں کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔ فوج کے سربراہ، جنرل قمر باجوہ کے بدھ کے روز کے بیان سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اِن کارروائیوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مابین مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

فوجی سربراہ نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ’’قابلِ عمل انٹیلی جنس‘‘ کا تبادلہ کیا جائے، یہ کہتے ہوئے کہ اُن کی افواج شدت پسندوں کے خلاف اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اُنھوں نے براہِ راست ہنگو کی کارروائی کا حوالہ دیا ہے۔

باجوہ نے کہا کہ ’’ڈرون حملوں کی طرح کے یکطرفہ اقدامات نقصاندہ ہوتے ہیں اور تعاون اور صیغہٴ راز کی معلومات کے جاری تبادلے کے جذبے کے خلاف ہیں، جن کی پاکستان دلجمعی سے پاسداری کرتا ہے‘‘۔

اُنھوں نے یہ بیان صوبائی دارالحکومت پشاور میں علاقائی کمانڈروں کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دیا۔

منگل کے روز کی گئی کارروائی، ٹرمپ انتظامیہ کے دوران ہونے والا پہلا اقدام ہے، جس میں افغان سرحد کے ساتھ پاکستان کے نیم خودمختار قبائلی علاقوں میں کیا گیا، جس میں شدت پسندوں کی اکثریت موجود ہے۔

کی گئی کارروائی سے قبل پاکستانی قائدین کی جانب سے بارہا کہا گیا تھا کہ انسداد دہشت گردی کے سلسلے کی فوجی کارروائیوں میں حقانی کے ٹھکانوں کا صفایا کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں لڑاکے افغانستان بھاگ نکلے ہیں۔

ایک عرصے سے امریکی اہل کار الزام لگاتے رہے ہیں کہ سرکش طالبان، خاص طور پر وہ جن کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے ہے، اُنھیں پاکستان کا جاسوسی کا ادارہ سرحد پار مہلک حملوں کی منصوبہ سازی میں حمایت فراہم کرتا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ، اِن دِنوں، امریکہ کی افغان پالیسی کا جائزہ لے رہا ہے۔ مائیکل کوگل من کی سمیت چند امریکی ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرحد کے اندر باغیوں کے خلاف ڈرون حملے وضع کی جانے والی نئی حکمت عملی کا اہم حصہ ہو سکتا ہے۔