پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل سے ملک میں سرگرم دہشت گردوں کی مالی اعانت روکنے مدد ملی ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ بعض سیاسی چیلنجوں کے باعث اس قومی لائحہ عمل کی کچھ جہتوں پر عمل درآمد کے لیے وقت درکار ہے۔
میجرجنرل عاصم باجوہ نے یہ بات روس کے ایک جریدے ’’سپتنک‘‘ سے انٹرویو میں کہی۔ واضح رہے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے دورہ روس کے دوران میجر جنرل عاصم باجوہ بھی اُن کے ہمراہ تھے۔
فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں کے باعث دہشت گرد گروہوں کی مالی معاونت رک چکی ہے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے گزشتہ سال دسمبر میں ایک قومی لائحہ عمل وضع کیا تھا، جس کے تحت ملک کے طول و عرض میں عسکریت پسندوں اور اُن کے حامیوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
اس قومی لائحہ عمل کے تحت دہشت گردوں کے مالی وسائل کو روکنا اور ختم کرنا بھی شامل تھا۔
’’سپتنک‘‘ جریدے کے مطابق میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ پاکستان انتہا پسندی کے تدارک کے لیے کام کر رہا ہے، اور اس ضمن میں خاص طور پر نوجوانوں پر نظر رکھی جا رہی ہے کیونکہ دہشت گردوں کی توجہ اُنھیں اپنی صفوں میں شامل کرنے کی طرف ہوتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ بنیاد پرستی سے نجات کے لیے کچھ آزمائشی منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن کو اب قومی سطح پر وسعت دی جائے گی۔
فوج کے ترجمان نے خاص طور پر مئی میں کراچی کے مضافاتی علاقے صفورہ گوٹھ میں ایک بس پر حملے میں نوجوانوں کے ملوث ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کارروائی میں تعلیم یافتہ نوجوان ملوث تھے۔
تاہم اُنھوں نے کہا کہ اس سے یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیئے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت انتہا پسندی میں ملوث ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں گزشتہ سال جون میں دہشت گردوں کے خلاف شروع کیے آپریشن ’ضرب عضب‘ کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے، جس میں فوج کے مطابق 2700 سے زائد دہشت گرد مارے گئے۔
قبائلی علاقوں میں بھرپور فوجی کارروائی کے علاوہ پاکستان بھر میں بھی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر 9000 سے زائد کارروائیاں کی گئیں۔