پاکستانی فوج کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا اس سے منسلک عسکری تنظیموں کے ساتھ آرمی کسی طرح کے مذاکرات نہیں کر رہی ہے۔
منگل کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں ترجمان نے فوج اور عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی اطلاعات کو ’’من گھڑت، بے بنیاد اور سراسر غلط‘‘ قرار دیا ہے۔
’’عسکری تنظیموں کے ساتھ کوئی بھی مذاکرات یا مصالحتی عمل پر غور و فکر حکومت کا کام ہے۔‘‘
ایک روز قبل کالعدم ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ان کے قائدین اور پاکستانی سکیورٹی حکام کے مابین امن بات چیت ہو رہی ہے۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے بھی طالبان کے ساتھ رسمی مذاکرات کی تردید کی ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اس طرف راغب ہو رہے ہیں تو یہ ایک خوش آئند بات ہے جس کا حکومت پاکستان خیر مقدم کرتی ہے۔
’’میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ پیغامات طالبان کی طرف سے بھی آتے رہتے ہیں اور میں بھی (امن بات چیت) کا عندیہ دے چکا ہوں۔ چند دن پہلے بھی ایک پیغام آیا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی امن کی بات ہو۔ اب ظاہر ہے سارے فریقین بیٹھیں گے کیونکہ یہ ایک قومی ایشو ہے۔‘‘
لیکن رحمٰن ملک نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی شرائط دہراتے ہوئے کہا کہ اس کے لیےعسکریت پسندوں کو پہلے اپنے ہتھیار پھینک کر دہشت گردی کو چھوڑنا ہو گا۔
’’سب سے پہلے (ہمارا) مطالبہ یہ ہے کہ دہشت گردی چھوڑ دو جس کے بعد ہم بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر آپ ایک ہاتھ میں کلاشنکوف اور راکٹ لانچر رکھ کر ہم سے ہاتھ ملانا چاہتے ہیں تویہ نہیں ہوگا۔‘‘
پاکستانی فوج اور طالبان کے مابین مذاکرات کی اطلاعات ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب قبائلی علاقوں خیبر ایجنسی، کرم اور اورکزئی میں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز نے کارروائیاں تیز کر رکھی ہیں جن میں درجنوں جنگجوؤں کو ہلاک اور اُن کے ٹھکانے تباہ کرنے کے دعوے بھی کیے گئے ہیں۔
مزید برآں اطلاقات کے مطابق افغان سرحد سے ملحقہ شمالی وزیرستان میں سرگرم طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر نے اپنے زیر اثر علاقے میں سڑک کی تعمیر کے اہم فوجی منصوبے میں خلل نا ڈالنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن ساتھ ہی مقامی قبائلیوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ اس منصوبہ پر کام میں شامل ہوئے تو اُنھیں ہلاک کر دیا جائے گا۔
حافظ گل بہادر نے رواں ماہ ایک فوجی آپریشن میں اپنے ساتھیوں کی ہلاکت پر احتجاج کرتے ہوئے فوج کے ساتھ امن معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
عسکریت پسندوں کے خلاف فوج کی کارروائیوں اور طلابان کی دھمکیوں کے پیش نظر مبصرین بھی امن بات چیت شروع ہونے کے دعوؤں پر شک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔