برصغیر با لخصو ص پاکستانی معاشرے میں ثقافتی قدروں اور خاندانی روایات سے جڑے رہنا ہر شخص کے لیے بہت اہم سمجھا جاتا ہے لیکن انسانی ترقی کے باعث مادیت پسندی جس تیزی سے معاشرتی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اس سے مل جل کر رہنے کا تصور اور رشتے ناطوں کی پہچان ختم ہوتی جارہی ہے۔ پاکستانی معاشرے کا یہی خاندانی نظام موضوع ہے کراچی کی وی ایم آرٹ گیلری میں جاری تصویری نمائش کا جہاں چودہ آرٹسٹوں نے مختلف زاویوں سے خاندان کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ تصویریں دیکھنے والوں کو کہیں اسلام آباد جیسے خوبصورت شہر کے مضافات میں رہنے والے غریب خاندانوں کی اپنی دنیا کوخوبصورت بنانے کی کوشش بتاتی ہیں تو کہیں ذہنی کشمکش ،زندگی کی مسرتیں ، رشتہ ناطے اور حیات و ممات کی عکاسی کرتی ہیں۔ کہیں پنجاب کے کسی
دو رافتادہ گاوٴں میں مشترکہ خاندانی نظام اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کی جھلک ہے تو کہیں شہروں میں اپنے تنہا وجود کے لیے سہارے تلاش کرنے اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کی جدوجہد ہے۔ کہیں شاگرد کا استاد کی رحلت کے بعد رہ جانے والے خلااور ادھورے پن کا احساس ہے تو کہیں ایک بیٹے کا والدین کے لیے دعا ، عقیدت مندی اور محبت کا اظہار ہے ۔ کہیں اپنی شناخت کھو جانے والے لوگوں کی منظر کشی ہے تو کہیں اپنی شناحت پر فخر کرنے کا احساس غالب ہے۔ اور اسی لیے اس نمائش کا نام ” دی فیملی “ رکھا گیا ہے۔
دی فیملی کے منتظم اور معروف فوٹو گرافر عارف محمود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ معاشرہ آہستہ آہستہ اجتماعیت سے نکل کر انفرادیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔پرانی رسمیں ، پرانے خاندانی ناطے غائب ہو رہے ہیں۔” یہ اس لیے کہ افراتفری بہت ہے اور ذاتی مفاد ہر طبقہ میں بالاترہوچکا ہے۔ اسی لیے تصویری ڈائری کے ذریعے لوگوں کو خاندان کی بنیادیں اور ساتھ رہنے کی اہمیت بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہماری جڑیں، شناخت سب سے اہم ہیں، ان سے ہمارا رشتہ ختم نہیں ہونا چاہئیے ۔ “
اس نمائش میں چند تجربہ کار آرٹسٹوں کے ساتھ نئے اور مالی لحاظ سے ہر طبقہ کے آرٹسٹوں کا کام شامل کیا گیا ہے ۔ 60 سے 70 کے قریب فن پارے رکھے گئے ہیں جن میں سے اب تک پانچ فروخت ہوچکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ فروحت ہونے والے تمام فن پارے نمائش میں شامل سب سے کم عمر آرٹسٹ ایمان رانا کے ہیں اور ان کے فن پاروں کا موضوع ہے ’ ’55 صدر بازار،افغان منزل “۔
افغان منزل ایک گھر میں ساتھ رہنے والی چار پشتوں اور چار خاندانوں کی کہانی ہے جہاں قہقہے اور مسرتیں گونجتی تھیں ، دانائی اور روحانیت کا ڈیرہ تھا اور لوگوں میں احساسِ تعلق گہرا تھا۔ایک ایسا گھر جس کا آغاز محبت اور انجام ایک المیہ۔
ایمان بتاتی ہیں ” وہ میری نانی اور پرنانی کا گھر تھا جہاں ستر، اسی لوگ رہتے تھے۔وہ سالوں سال سے ایک بھرا پرا گھر تھا مگر اب ایک کھنڈرکی مانند ہے ۔“ ایمان کا ننھیال افغانستان سے ہجرت کرکے حیدرآباد میں مقیم ہوااور اپنی عمارت کا نام افعان منزل رکھا۔ وہ پانچ سال کی تھیں جب ان کے خاندان نے وہ گھر چھوڑا۔”میں واپس وہاں جانا چاہتی تھی ۔ یہ تصویریں وہاں کی ہیں ۔ان میں خالی پن کا احساس ہے ۔وہا ںآ پ جائیں گے تو کہیں کھلونے ملیں گے، کہیں مٹکے میں پانی، جیسے کل ہی یہاں کوئی رہتا تھا مگر اب افعان منزل میں ترکِ تعلق کی اداسی ہے۔“
ایمان کہتی ہیں کہ ان تصویروں کے ذریعے انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہیں کہ ان کے لیے ان کی فیملی بہت اہم ہے ۔” اپنی بنیادسے منسلک رہنا ہمیں مکمل کرتا ہے۔‘‘
وی ایم آرٹ گیلری کی ڈائریکٹر اور معروف مصورہ رفعت علوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس فوٹو ایگزی بیشن میں معاشرے کے حساس موضوع پر بڑی خوبصورتی سے بات کی گئی ہے۔ یہاں بہت سے ایسی تصویریں ہیں جنھیں دیکھ کر جب آپ نام پڑھتے ہیں تو وہ ایک نیا نام ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں صلاحتیوں کی کمی نہیں۔ہمارے نوجوانوں کا کام بہت پراثر اور منظم ہے ۔
اس نمائش میں ایک معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور ان رشتوں کو ایک خاندان سے منسلک کیا گیا ہے۔ ملیکہ عباس نے اپنی تصویروں کو خواتین کے نام کیا ہے اور اسے” فیملی ریسی پی“ کا نام دیا ہے ۔ ” یہ عورت ہی ہے جو خاندان بناتی ہے، اسے اکٹھا رکھتی ہے۔کچھ نے بڑے خاندانی نظام کو ترجیح دی تو کچھ نے چھوٹے ۔ہر ایک کی اپنی کہانی ہے کہ کس طرح انھوں نے خود جدوجہد کرکے اپنے خاندان کو جوڑے رکھا۔“
ساری بات تعلق والی جذبوں کی سچائی تک ہے
میل دلوں میں آجائے تو گھر ویرانے ہوجاتے ہیں