وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سوشل میڈیا قواعد کا ابھی اطلاق نہیں ہوا، بلکہ اس حوالے سے کابینہ نے صرف رولز کی منظوری دی ہے۔
چند روز قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سوشل میڈیا قواعد کے حوالے سے مجوزہ بل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم، مخالفت کے باوجود وفاقی کابینہ نے اس کے منظوری دے دی تھی۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں بات کرتے ہوئے، نیوز چینل سما کے ڈیجیٹل میڈیا ڈائریکٹر عمر قریشی کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی ٹویٹر، واٹس اپ یا فیس بک کو دیکھیں تو انہیں ریگولیٹ کرنا یا کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ اگر پاکستان میں ایسا کیا جاتا تو کافی ناموافق ردِ عمل آتا اور اس کے منفی اثرات پاکستان کے باہر بھی پڑتے۔ عمر قریشی کے خیال میں حکومت کے لئے ایسا کرنا مشکل ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی فی الواقع وہ یہ کس طرح کریں گے، ابھی واضح نہیں ہے۔
پروگرام ’جہاں رنگ‘ ہی میں بات کرتے ہوئے، دفاعی تجزیہ کار برگیڈیئر ریٹائرڈ ٹیپو سلطان کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت نے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ سماجی میڈیا ریگولیٹ نہیں ہو سکتا۔ مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سماجی میڈیا ریگولیٹ ہو سکتا ہے، لیکن تباہی کی صورت میں جیسا کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہواکہ انھوں نے سماجی میڈیا کا بالکل بلیک آوٹ کیا۔ لیکن، بھارت میں جو فسادات اب ہو رہے ہیں کیا اس میں سماجی میڈیا کا بلیک آؤٹ ممکن ہوا؟ حالانکہ، بقول ان کے، ٹویٹر اور فیس بک کے لاکھوں اکاؤنٹ بلاک کر دئے گئے تھے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ انٹرنیشنل آفس میں جو انڈین کام کرتے ہیں انھوں نے پاکستانی اکاونٹس ڈیلیٹ کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے سوشل میڈیا پر قوانین بنائے، امریکہ نے بنائے، سنگاپور نے بنائے، اب اگر پاکستان ایسا کرنے میں اپنا مفاد دیکھ رہا ہے تو اس میں حیرت کی بات نہیں ہونی چاہئے۔
پروگرام میں فون کے ذریعے شامل ہونے والے ایک صاحب نے پوچھا کیا کہ آیا وہ پاکستان میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر والے ماڈل کی بات کر رہے ہیں؟ تو بریگیڈئر ریٹائرڈ ٹیپو سلطان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو وہ بات کرنا چاہئے جس میں ملک کا فائدہ ہو، ’
جب عمر قریشی کا کہنا تھا کہ ان کی تجویز تو یہ ہوگی کہ پہلے سے ہی موجود قوانین میں بہت سی ایسی شقیں ہیں جو میڈیا اور آزادی اظہار سے متعلق ہیں۔اور آئین کے آرٹیکل 19 میں ہتک عزت سے متعلق شقیں بھی ہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ حکومت انہی شقوں کا نفاذ کرے نہ کہ نئے قواعد بنائے۔ چونکہ، بقول ان کے، جو نئے قواعد بنتے ہیں وہ فوری طور پر واضح نہیں ہوتے جس بنا پر ان کے نفاذ اور عملدرآمد سے مسائل پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔