’شدت پسند‘ تنظیموں کی قومی دھارے میں شمولیت پر بحث

فائل

ملی مسلم لیگ کے قیام کی کوشش کو جماعت الدعوۃ کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا عمل تصور کیا جا رہا ہے لیکن بعض حلقوں کی طرف سے اس پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

پاکستان میں جماعت الدعوۃ کی سیاسی جماعت ’ملی مسلم لیگ‘ کے سیاست میں آنے اور پارٹی کی رجسٹریشن کا معاملہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرونِ ملک بھی زیرِ بحث ہے۔

جماعت الدعوۃ کا شمار ان تنظیموں میں ہوتا ہے جن پر اقوامِ متحدہ کے علاوہ امریکہ کی طرف سے بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جمعرات کو ہونے والی نیوز کانفرنس میں بھی اس بارے میں سوال پوچھا گیا تو انھوں کہا کہ اس بارے میں ریاست ہی کو فیصلہ کرنا ہے۔

’’جہاں تک یہ جو مختلف تنظیمیں ہیں جن سے پولیٹیکل کورس میں جانے کی بات چیت ہو رہی ہے تو ایک تو یہ ریاست کا مسئلہ ہے اور ریاست کا ہی فیصلہ ہونا ہے، سیاسی عمل میں حصہ لینا، ہر پاکستانی کو اس کا حق ہے۔‘‘

تاہم اُنھوں نے اس بارے میں کسی طرح کا تبصرہ نہیں کیا کہ ملی مسلم لیگ کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے پیچھے فوج کا بھی کردار ہے۔

’’افواجِ پاکستان ریاست کے حکم پر چلتی ہیں اور ریاست کے حکم پر ہی کام کرتی ہیں۔ تو یہ جو ایک پراسس چلا ہے اس پر حکومت نے (فیصلہ کرنا ہے)۔۔۔ کیونکہ میں آرمڈ فورسز کا ترجمان ہوں لیکن میرے علم میں ہے کہ حکومت نے اس کے اوپر کچھ بات چیت کرنی شروع کی ہے کہ ان کو کس طریقے سے ہم قومی دھارے میں شامل کریں کہ وہ ایک تعمیرِ کردار ادا کر سکیں۔۔۔۔ اب اس کو کیسے آگے لے کر چلنا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا جس پر حکومت فیصلہ کرے گی۔‘‘

رواں سال اگست میں جماعت الدعوۃ نے ’ملی مسلم لیگ‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال اس جماعت کا الیکشن کمیشن میں اندارج نہیں کیا گیا اور اس بارے میں الیکشن کمیشن نے وزارت داخلہ سے بھی بعض معاملات پر رائے مانگی تھی۔

گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ وزارت داخلہ نے ملی مسلم لیگ کو بطور سیاسی جماعت رجسٹر نہ کرنے کی سفارش کی ہے۔

ملی مسلم لیگ کے قیام کی کوشش کو جماعت الدعوۃ کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا عمل تصور کیا جا رہا ہے لیکن بعض حلقوں کی طرف سے اس پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

گزشتہ ماہ کے اواخر ہی میں پاکستان کے ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی اُمور نے لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں جماعت الدعوۃ کے حمایت یافتہ اُمیدوار کو الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی نشان جاری کرنے پر تشویش اور ناگواری کا اظہار کیا تھا۔

تاہم الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ یعقوب شیخ نے یہ انتخاب آزاد اُمیدوار کے طور پر لڑا تھا اور اسی بنیاد پر اُنھیں انتخابی نشان دیا گیا۔

یعقوب شیخ نے یہ انتخاب تو آزاد اُمیدوار کے طور پر لڑا تھا لیکن اُن کے انتخابی بینرز اور پوسٹروں پر جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی تصویریں نمایاں تھیں۔

جماعت الدعوۃ کی غیر رجسٹرڈ سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ اُمیدوار یعقوب شیخ کو 5800 سے زائد ووٹ ملے تھے اور وہ اس حلقے میں ہونے والی ضمنی انتخاب میں چوتھے نمبر پر رہے تھے۔

حافظ سعید جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں اور ان دونوں تنظیموں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی اور امریکہ، دہشت گرد تنظیمیں قرار دے چکے ہیں۔

بھارت کا الزام ہے کہ 2008ء میں ممبئی میں ہونے والا حملہ لشکر طیبہ نے کیا تھا جس کے بانی بھی حافظ سعید ہیں۔ حافظ سعید اس کی تردید کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ لشکر طیبہ ایک الگ تنظیم ہے۔

لاہور ہی کے ضمنی انتخابات میں پہلی مرتبہ تحریکِ لبیک کے نام سے سامنے والی مذہبی جماعت نے بھی حصہ لیا تھا اور اُن کا اُمیدوار آٹھ ہزار سے زائد ووٹ لے کر تیسرے نمبر رہا تھا۔