کوئٹہ سے پیدل مارچ کرنے والے شرکا لگ بھگ 2500 کلومیٹر کا فاصلے طے کر چکے ہیں، اس مارچ کی قیادت ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے رہنما قدیر بلوچ کر رہے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان سے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ان کے لواحقین کا ایک نمائندہ گروپ کوئٹہ سے راولپنڈی پہنچ گیا جہاں سے وہ اپنی منزل وفاقی دارالحکومت جائے گا۔
کوئٹہ سے پیدل مارچ کرنے والے شرکا لگ بھگ 2500 کلومیٹر کا فاصلے طے کر چکے ہیں۔ اس مارچ کی قیادت ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے رہنما قدیر بلوچ کر رہے ہیں۔
قدیر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کے ہمراہ 14 خواتین، تین بچے اور چار مرد ہیں۔
مارچ کے شرکا نے گزشتہ سال 27 اکتوبر کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے پیدل سفر کا آغاز کیا تھا اور نومبر میں کراچی پہنچنے پر اُنھوں نے وہاں کچھ روز کے لیے احتجاجی کیمپ بھی قائم کیا۔
لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سفر کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے دفتر میں ایک یاداشت جمع کروانے کے بعد علامتی دھرنا بھی دیں گے۔
بلوچستان کے علاوہ بھی کئی دیگر علاقوں خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ کے بعض اضلاع میں لوگوں کا کہنا ہے کہ اُن کے عزیز و اقارب لاپتا ہیں۔
حال ہی میں وادی سوات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں نے اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیا تھا۔
اس احتجاج میں شامل سوات کے خان بادشاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ اُن کے بھائی 2010ء سے لاپتا ہیں۔
لاپتا افراد کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے حکومت نے عدالتی کمیشن بھی تشکیل دے رکھا ہے جب کہ ملک کی اعلٰی ترین عدالت بھی اس معاملے کا نوٹس لے چکی ہے۔
بلو چستان سے لاپتا افراد معاملہ کئی سالوں سے یوں ہی چلا آرہا ہے اور صوبے کی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے تیار کی گئی فہرست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صوبے کے ہزاروں افراد لاپتا ہو گئے ہیں۔
لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیمیں کہہ چکی ہیں کہ لاپتا افراد کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے۔
حکومت یہ بھی کہہ چکی ہے کہ بلوچ تنظیمیں جن افراد کی جبری گمشیدگیوں کا دعویٰ کرتی ہیں وہ سکیورٹی فورسز کی تحویل میں نہیں ہیں۔
کوئٹہ سے پیدل مارچ کرنے والے شرکا لگ بھگ 2500 کلومیٹر کا فاصلے طے کر چکے ہیں۔ اس مارچ کی قیادت ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے رہنما قدیر بلوچ کر رہے ہیں۔
قدیر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کے ہمراہ 14 خواتین، تین بچے اور چار مرد ہیں۔
مارچ کے شرکا نے گزشتہ سال 27 اکتوبر کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے پیدل سفر کا آغاز کیا تھا اور نومبر میں کراچی پہنچنے پر اُنھوں نے وہاں کچھ روز کے لیے احتجاجی کیمپ بھی قائم کیا۔
لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سفر کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے دفتر میں ایک یاداشت جمع کروانے کے بعد علامتی دھرنا بھی دیں گے۔
بلوچستان کے علاوہ بھی کئی دیگر علاقوں خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ کے بعض اضلاع میں لوگوں کا کہنا ہے کہ اُن کے عزیز و اقارب لاپتا ہیں۔
حال ہی میں وادی سوات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں نے اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیا تھا۔
اس احتجاج میں شامل سوات کے خان بادشاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ اُن کے بھائی 2010ء سے لاپتا ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بلو چستان سے لاپتا افراد معاملہ کئی سالوں سے یوں ہی چلا آرہا ہے اور صوبے کی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے تیار کی گئی فہرست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صوبے کے ہزاروں افراد لاپتا ہو گئے ہیں۔
لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیمیں کہہ چکی ہیں کہ لاپتا افراد کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے۔
حکومت یہ بھی کہہ چکی ہے کہ بلوچ تنظیمیں جن افراد کی جبری گمشیدگیوں کا دعویٰ کرتی ہیں وہ سکیورٹی فورسز کی تحویل میں نہیں ہیں۔