نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ماضی میں ریاست کے بلوچستان کی طرف ان کے بقول غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے حالات میں سنگین حد تک بگاڑ آیا ہے۔
اسلام آباد —
صوبہ بلوچستان کی حکمران جماعت نیشنل پارٹی کے سینیئر نائب صدر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ ناراض بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مذاکرات کے آغاز سے پہلے وفاقی حکومت کو صوبے میں لاپتہ افراد اور گلی کوچوں میں گولیوں سے چھلنی لاشوں کے ملنے کے سلسلے کو روکنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان اعتماد سازی کے اقدامات کے بغیر ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ کسی قسم کا مفاہتی عمل شروع نہیں کر پائیں گے۔
انہوں نے تنبیہ کی کہ اگر ایسا نا ہوا تو ان کی جماعت صوبائی حکومت سے علیحدہ ہو جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے بدھ کو خصوصی گفتگو میں سینیٹر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات کے بگاڑ میں یہ اہم عوامل ہیں اور ان کے حل پر وفاقی حکومت اور پاکستان آرمی کی آمادگی ناگزیر ہے۔
’’جنرل کیانی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ (مسائل کے) سیاسی حل کے حق میں ہیں اور نواز شریف نے ہماری ملاقات میں کہا کہ وہ ان کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ بات مان جاتے ہیں اور حل کرتے ہیں تو چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں لیکن اگر کہتے ہیں کہ نہیں کرتے تو ہمارا حکومت میں رہنا زیادہ دیر ممکن نا ہوگا۔‘‘
گزشتہ روز ہی وزیراعظم میاں نواز شریف نے بلوچستان کے نو منتخب وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ سے اسلام آباد میں ملاقات میں انہیں ناراض قوم پرست رہنماؤں سے مفاہتی عمل شروع کرنے کی ہدایت دی تھی۔
بلوچ قوم پرست گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبائی خود مختاری اور وہاں پائے جانے والے قدرتی معدنیات اور دیگر وسائل پر اختیار کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور وقتاً فوقتاً یہ جدوجہد عسکری شکل بھی اختیار کرتی رہی ہے۔
بلوچستان میں حالیہ عسکریت پسندانہ کارروائیوں کا آغاز قوم پرست بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی اگست 2006ء میں ایک فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد ہوا۔
حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کے دور میں آئینی ترامیم سے صوبوں کو ان کے وسائل پر اختیارات حاصل ہوگئے ہیں اس لئے اب ناراض بلوچ رہنما عسکری جدوجہد ترک کرکے جمہوری اور آئینی انداز میں بلوچستان کے عوام کی بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں میں شامل ہوں۔
’’وہ علیحدہ ریاست چاہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں۔ یہ تب ممکن ہے جب آپ پاکستانی فوج سے زیادہ طاقتور ہو جائیں جو ممکن نہیں۔ تو اس جنگ سے عام بلوچ متاثر ہوگا۔ ہمارے یہاں سکول بند پڑے ہیں۔ کاروبار نہیں، روزگار نہیں۔‘‘
نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ماضی میں ریاست کے بلوچستان کی طرف ان کے بقول غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے حالات میں سنگین حد تک بگاڑ آیا ہے۔ حاصل بزنجو نے تسلیم کیا کہ علیحدگی پسند بلوچوں کو بیرون ملک سے بھی امداد حاصل ہو رہی ہے۔
’’اس (علیحدگی پسند بلوچ) کے لئے تو ہم نے خود راہ ہموار کی ہے۔ اگر بلوچستان میں ترقی ہوتی تو ایسی صورتحال نا ہوتی۔ کیا 20 سال پہلے آزاد پشتونستان کا نعرہ نا تھا یا سندھو دیش کا نعرہ نا تھا؟ آپ نے وہاں ترقیاتی کام کیے، لوگوں کو ساتھ لیا آہستہ آہستہ چیزیں بہتر ہوگئیں۔ لیکن بلوچتسان کو آپ نے ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘
ادھر بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) کے ایک وفد نے وزیراعظم سے ملاقات میں بھی لاپتہ افراد کے مسئلے پر بات چیت کی اور میاں نواز شریف سے اس مسئلے کے جلد حل کابھی مطالبہ بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان اعتماد سازی کے اقدامات کے بغیر ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ کسی قسم کا مفاہتی عمل شروع نہیں کر پائیں گے۔
انہوں نے تنبیہ کی کہ اگر ایسا نا ہوا تو ان کی جماعت صوبائی حکومت سے علیحدہ ہو جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے بدھ کو خصوصی گفتگو میں سینیٹر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات کے بگاڑ میں یہ اہم عوامل ہیں اور ان کے حل پر وفاقی حکومت اور پاکستان آرمی کی آمادگی ناگزیر ہے۔
’’جنرل کیانی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ (مسائل کے) سیاسی حل کے حق میں ہیں اور نواز شریف نے ہماری ملاقات میں کہا کہ وہ ان کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ بات مان جاتے ہیں اور حل کرتے ہیں تو چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں لیکن اگر کہتے ہیں کہ نہیں کرتے تو ہمارا حکومت میں رہنا زیادہ دیر ممکن نا ہوگا۔‘‘
گزشتہ روز ہی وزیراعظم میاں نواز شریف نے بلوچستان کے نو منتخب وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ سے اسلام آباد میں ملاقات میں انہیں ناراض قوم پرست رہنماؤں سے مفاہتی عمل شروع کرنے کی ہدایت دی تھی۔
بلوچ قوم پرست گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبائی خود مختاری اور وہاں پائے جانے والے قدرتی معدنیات اور دیگر وسائل پر اختیار کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور وقتاً فوقتاً یہ جدوجہد عسکری شکل بھی اختیار کرتی رہی ہے۔
بلوچستان میں حالیہ عسکریت پسندانہ کارروائیوں کا آغاز قوم پرست بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی اگست 2006ء میں ایک فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد ہوا۔
حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کے دور میں آئینی ترامیم سے صوبوں کو ان کے وسائل پر اختیارات حاصل ہوگئے ہیں اس لئے اب ناراض بلوچ رہنما عسکری جدوجہد ترک کرکے جمہوری اور آئینی انداز میں بلوچستان کے عوام کی بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں میں شامل ہوں۔
’’وہ علیحدہ ریاست چاہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں۔ یہ تب ممکن ہے جب آپ پاکستانی فوج سے زیادہ طاقتور ہو جائیں جو ممکن نہیں۔ تو اس جنگ سے عام بلوچ متاثر ہوگا۔ ہمارے یہاں سکول بند پڑے ہیں۔ کاروبار نہیں، روزگار نہیں۔‘‘
نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ماضی میں ریاست کے بلوچستان کی طرف ان کے بقول غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے حالات میں سنگین حد تک بگاڑ آیا ہے۔ حاصل بزنجو نے تسلیم کیا کہ علیحدگی پسند بلوچوں کو بیرون ملک سے بھی امداد حاصل ہو رہی ہے۔
’’اس (علیحدگی پسند بلوچ) کے لئے تو ہم نے خود راہ ہموار کی ہے۔ اگر بلوچستان میں ترقی ہوتی تو ایسی صورتحال نا ہوتی۔ کیا 20 سال پہلے آزاد پشتونستان کا نعرہ نا تھا یا سندھو دیش کا نعرہ نا تھا؟ آپ نے وہاں ترقیاتی کام کیے، لوگوں کو ساتھ لیا آہستہ آہستہ چیزیں بہتر ہوگئیں۔ لیکن بلوچتسان کو آپ نے ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘
ادھر بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) کے ایک وفد نے وزیراعظم سے ملاقات میں بھی لاپتہ افراد کے مسئلے پر بات چیت کی اور میاں نواز شریف سے اس مسئلے کے جلد حل کابھی مطالبہ بھی کیا۔