بلوچستان کے تمام علاقوں میں موبائل فون سروس کی بحالی کا مطالبہ

فائل

ملک میں 25 جولائی کے انتخابات سے پہلے بلوچستان کے بعض علاقوں میں موبائل فون سروس کی بندش پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے، پاکستان میں انسانی حقوق اور انٹرنیٹ صارفین سے متعلق سرگرم تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’ملک کے تمام شہریوں کے لیے پولنگ کے دن مواصلات اور معلومات کے ذرائع تک بلا تعطل رسائی کو یقینی بنایا جائے۔‘‘

یہ مطالبہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ذرائع ابلاغ میں ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ حکومت امن و امان کی صورت حال کو کنڑول کرنے کے لیے پولنگ کے دن ملک کے بعض دیگر شہروں میں بھی موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس کو معطل کر سکتی ہے۔ تاہم، ان اطلاعات کی حکومت کی طرف سے تصدیق نہیں کی گئی۔

انسانی حقوق کے مؤقر غیر سرکاری ادارے، ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘، انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’بائٹس فار آل‘ اور ’پیس اینڈ جسٹس نیٹ ورک‘ کے نمائندوں نے منگل کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے موقع پر کہا کہ سیکورٹی کو جواز بنا کر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے حکام نے بلوچستان کے متعدد اضلاع میں پہلے ہی موبائیل نیٹ ورک کی سروس معطل کر دی ہے۔

اس موقع پر ’بائٹس فار آل‘ کے عہدیدار شہزاد احمد نے کہا کہ "جب انٹرنیٹ یا موبائل فون کی سروس میں کسی وجہ سے تعطل آ جاتا ہے سب سے پہلے جو مسئلہ ہمارے خیال میں ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے جو سافٹ وئیر اور ایپ بنائی ہیں جن کے ذریعے الیکشن کا ڈیٹا 25 جولائی کو پولنگ کے بعد الیکشن کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا وہ بھی کام نہیں کر پائیں گے"

انہوں نے بلوچسان اور ملک کے تمام علاقوں میں معطل کی جانے والے موبائل سروس کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ماروی سرمد نے حکومت پر زور دیا ہے کہ عام انتخاب کے دن ملک بھر میں موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

دوسری طرف پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں بعض سیکورٹی وجوہات کی بنا پر موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کی سروس کو عارضی طور پر معطل کیا گیا۔ تاہم، انہوں نے عام انتخابات کے موقع پر ملک کے بعض دیگر شہروں میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کو معطل کرنے کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تاحال ایسے کسی بھی اقدامات کے لیے حکومت کی طرف سے ہدایت نہیں دی گئی ہے۔

دوسری طرف ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) حالیہ مہینوں میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے کام کرنے والے بعض صحافیوں کی طرف سے آزادی اظہار میں مداخلت کی شکایات کے معاملے کی تحقیقات کے بعد کمیشن کی طرف سے پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ کے اجرا کے موقع پر حکومت اور اس کی انتظامی اداروں سے ایسی شکایات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے آزادی اظہار میں مبینہ مداخلت کو روکنے کا کہا ہے۔

حالیہ مہینوں میں بعض صحافیوں اور کچھ نشریاتی اداروں کی طرف سے ان تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ملک میں آزادی اظہار کی فضا سکڑ رہی ہے۔ تاہم، حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت آزادی اظہار پر یقین رکھتی ہے اور میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عزم پر قائم ہے۔