پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کا مقصد ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی چالیس فیصد آبادی کے حالات بہتر بنانا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے نام سے غریب خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے ’بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام‘ کے منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا۔
اگرچہ 11 مئی کے انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں اس پروگرام کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے لیکن ’بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام‘ سے وابستہ ایک عہدیدار نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ادارے کے دو ہزار سے زائد ملازمین کو گزشتہ دو ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔
تاہم عہدیدار نے اس کی مزید تفصیل یا وجہ نہیں بتائی کہ تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔
لیکن ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی پہلی نامزد سربراہ فرزانہ راجہ کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ لیکن مئی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد وہ اب اس عہدے پر تعینات نہیں رہیں جب کہ اس پروگرام کے سیکرٹری محمد شیر خان کی مدت ملازمت کا کنٹریکٹ بھی ختم ہو گیا ہے اس لیے ادارے میں موجود فنڈز کے اجرا کے لیے کوئی مجاز افسر تعینات نہیں ہے۔
بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کا آغاز 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا تھا اور ابتدا میں پینتیس لاکھ غریب خاندانوں کو ماہانہ ایک ہزار روپے مالی معاونت کی ادائیگی کے لیے 34 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
مالی سال 13-2012ء کے لیے پچپن لاکھ خاندانوں کے لیے ستر ارب روپے مختص کیے گئے، جو کہ ملک کی کل آبادی کا لگ بھگ 18 فیصد ہیں۔
پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کا مقصد ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی چالیس فیصد آبادی کے حالات بہتر بنانا ہے۔
اندارج شدہ خاندانوں کو ہر تین ماہ بعد رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے جب کہ اس کے تحت نوجوانوں کو فنی تربیت کی فراہمی بھی شروع کی گئی تھی۔
موجودہ حکومت نے اس پروگرام کو صرف ’انکم اسپورٹ پروگرام‘ کے نام سے جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
اگرچہ 11 مئی کے انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں اس پروگرام کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے لیکن ’بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام‘ سے وابستہ ایک عہدیدار نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ادارے کے دو ہزار سے زائد ملازمین کو گزشتہ دو ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔
تاہم عہدیدار نے اس کی مزید تفصیل یا وجہ نہیں بتائی کہ تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔
لیکن ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی پہلی نامزد سربراہ فرزانہ راجہ کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ لیکن مئی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد وہ اب اس عہدے پر تعینات نہیں رہیں جب کہ اس پروگرام کے سیکرٹری محمد شیر خان کی مدت ملازمت کا کنٹریکٹ بھی ختم ہو گیا ہے اس لیے ادارے میں موجود فنڈز کے اجرا کے لیے کوئی مجاز افسر تعینات نہیں ہے۔
بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کا آغاز 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا تھا اور ابتدا میں پینتیس لاکھ غریب خاندانوں کو ماہانہ ایک ہزار روپے مالی معاونت کی ادائیگی کے لیے 34 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
مالی سال 13-2012ء کے لیے پچپن لاکھ خاندانوں کے لیے ستر ارب روپے مختص کیے گئے، جو کہ ملک کی کل آبادی کا لگ بھگ 18 فیصد ہیں۔
پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کا مقصد ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی چالیس فیصد آبادی کے حالات بہتر بنانا ہے۔
اندارج شدہ خاندانوں کو ہر تین ماہ بعد رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے جب کہ اس کے تحت نوجوانوں کو فنی تربیت کی فراہمی بھی شروع کی گئی تھی۔
موجودہ حکومت نے اس پروگرام کو صرف ’انکم اسپورٹ پروگرام‘ کے نام سے جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔