کمسن عیسائی لڑکی نے توہین اسلام کے الزامات کی سختی سےتردید کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں کوئی اُسے اور اُس کے خاندان کو قتل نہ کردے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں توہین اسلام کے متنازع الزامات کا سامنا کرنے والی ایک کمسن عیسائی لڑکی اوراُس کے والدین نے تحفظ فراہم کرنے کے حکومتی وعدوں کے باوجود کہا ہے کہ اُن کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔
پولیس نے 14 سالہ رِمشاء مسیح کو اگست کے وسط میں اسلام آباد کی ایک کچی آبادی سے قرآنی آیات پر مبنی صفحات کو نذرآتش کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
مگر امریکی ٹی وی چینل سی این این سے کسی نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے رِمشاء نے ان الزامات کی ایک بار پھر سختی سےتردید کرتے ہوئے کہا کہ اُسے خوف ہے کہ کہیں کوئی اُسے اور اُس کے خاندان کو قتل نہ کردے۔
لیکن اُس کا کہنا تھا کہ وہ ملک چھوڑ کر کبھی نہیں جائے گی کیونکہ ’’میں پاکستان سے محبت کرتی ہوں‘‘۔
ضمانت پر رہائی ملنے کے بعد سی این این کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں ڈاؤن سینڈروم نامی ذہنی بیماری کا شکار عیسائی لڑکی نے ہچکچاتے ہوئے اور پریشان آواز میں زیادہ تر سوالات کا جواب ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں دیا۔
رمشا نے توہین رسالت کے حوالے سے 16 اگست کو رونما ہونے والے واقعے کی ٹھیک سے تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اُسے جان بوجھ کر پھنسایا گیا کیونکہ اُس نے ایسا کوئی فعل نہیں کیا اور وہ معصوم اور بے قصور ہے۔
اُس کے والد، جو ایک مزدور ہیں، نے سی این این سے گفتگو میں کہا ہے کہ اُس کے خاندان میں کوئی شخص بھی قرآن کی بے حرمتی کی جرات نہیں کرسکتا۔
اسلام آباد کی ایک ذیلی عدالت نے گزشتہ ہفتے رمشا کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد پاکستانی حکام نےاُسے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے نامعلوم مقام کی طرف منتقل کردیا تھا۔
اس عیسائی لڑکی پر الزامات کے شواہد میں ردوبدل کرنے کے جرم میں مقامی مسجد کے امام خالد جدون کو پولیس نے حراست میں لے کر تفتیش شروع کررکھی ہے۔
مسجد کے نائب امام حافظ زبیر اور دو دیگر ساتھیوں نے پولیس کے سامنے اپنے بیان میں الزام لگایا تھا کہ اہل محلہ عیسائی لڑکی کے خلاف شواہد کے طور پر کچرے کا جو تھیلا مسجد لے کر آئے تھے امام مسجد نے قرآن سے صفحات پھاڑ کر اس میں شامل کردیے تاکہ رمشا کے خلاف مضبوط مقدمہ بنانے میں مدد ملے۔ ان گواہوں کے بقول امام مسجد علاقے سے عیسائی خاندانوں کو نکالنے کی سازش کا حصہ تھا۔
اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس نے تصدیق کی ہے کہ تھیلے سے ملنے والی راکھ لکڑی کی تھی اور اس میں موجود قرانی آیات پر مبنی چند صفحات جلے ہوئے نہیں تھے۔
اس واقعے کے بعد مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک بار پھر پاکستان میں توہین رسالت سے متعلق قوانین میں اصلاحات کے مطالبے شروع کردیے ہیں تاکہ اس کے غلط استعمال کو روکا جاسکے۔
پولیس نے 14 سالہ رِمشاء مسیح کو اگست کے وسط میں اسلام آباد کی ایک کچی آبادی سے قرآنی آیات پر مبنی صفحات کو نذرآتش کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
مگر امریکی ٹی وی چینل سی این این سے کسی نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے رِمشاء نے ان الزامات کی ایک بار پھر سختی سےتردید کرتے ہوئے کہا کہ اُسے خوف ہے کہ کہیں کوئی اُسے اور اُس کے خاندان کو قتل نہ کردے۔
لیکن اُس کا کہنا تھا کہ وہ ملک چھوڑ کر کبھی نہیں جائے گی کیونکہ ’’میں پاکستان سے محبت کرتی ہوں‘‘۔
ضمانت پر رہائی ملنے کے بعد سی این این کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں ڈاؤن سینڈروم نامی ذہنی بیماری کا شکار عیسائی لڑکی نے ہچکچاتے ہوئے اور پریشان آواز میں زیادہ تر سوالات کا جواب ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں دیا۔
رمشا نے توہین رسالت کے حوالے سے 16 اگست کو رونما ہونے والے واقعے کی ٹھیک سے تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اُسے جان بوجھ کر پھنسایا گیا کیونکہ اُس نے ایسا کوئی فعل نہیں کیا اور وہ معصوم اور بے قصور ہے۔
اُس کے والد، جو ایک مزدور ہیں، نے سی این این سے گفتگو میں کہا ہے کہ اُس کے خاندان میں کوئی شخص بھی قرآن کی بے حرمتی کی جرات نہیں کرسکتا۔
اسلام آباد کی ایک ذیلی عدالت نے گزشتہ ہفتے رمشا کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد پاکستانی حکام نےاُسے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے نامعلوم مقام کی طرف منتقل کردیا تھا۔
اس عیسائی لڑکی پر الزامات کے شواہد میں ردوبدل کرنے کے جرم میں مقامی مسجد کے امام خالد جدون کو پولیس نے حراست میں لے کر تفتیش شروع کررکھی ہے۔
مسجد کے نائب امام حافظ زبیر اور دو دیگر ساتھیوں نے پولیس کے سامنے اپنے بیان میں الزام لگایا تھا کہ اہل محلہ عیسائی لڑکی کے خلاف شواہد کے طور پر کچرے کا جو تھیلا مسجد لے کر آئے تھے امام مسجد نے قرآن سے صفحات پھاڑ کر اس میں شامل کردیے تاکہ رمشا کے خلاف مضبوط مقدمہ بنانے میں مدد ملے۔ ان گواہوں کے بقول امام مسجد علاقے سے عیسائی خاندانوں کو نکالنے کی سازش کا حصہ تھا۔
اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس نے تصدیق کی ہے کہ تھیلے سے ملنے والی راکھ لکڑی کی تھی اور اس میں موجود قرانی آیات پر مبنی چند صفحات جلے ہوئے نہیں تھے۔
اس واقعے کے بعد مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک بار پھر پاکستان میں توہین رسالت سے متعلق قوانین میں اصلاحات کے مطالبے شروع کردیے ہیں تاکہ اس کے غلط استعمال کو روکا جاسکے۔