اسلام آباد میں پروفیسر افتخار کی رہائش گاہ پر تالا لگا ہے جب کہ ان کی اہلیہ اپنے تین بچوں سمیت نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکی ہیں۔
اسلام آباد —
اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ وہ زیر حراست امریکہ سے تعلیم یافتہ پروفیسر افتخار شیخ کے خلاف مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کی شان میں توہین آمیز کتاب لکھنے کے الزام کی تحقیقات کررہے ہیں۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس خرم رشید نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ رات پروفیسر کے گھر کی تلاشی کے دوران مبینہ توہین آمیز ’’مرتبہ حضور پاک‘‘ نامی کتاب کی دو کاپیاں ملی ہیں جو کہ انہوں نے اپنی ذاتی پرنٹنگ پریس سے چھپوائی تھیں۔
’’مواد تو مل گیا مگر کیا وہ توہین آمیز ہے؟ اس حوالے سے رائے ماہرین سے لی جائے گی۔ ہم یہ تحقیقات کررہے ہیں کہ کیا توہین رسالت ہوئی ہے اور کس نے کی ہے؟‘‘
انہوں نے کہا کہ بظاہر اس حرکت میں مبینہ طور پر صرف پروفیسر افتخار ہی ملوث ہیں اور یہ مواد دوسرے افراد میں تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔
پروفیسر کی اسلام آباد میں رہائش گاہ پر تالا لگا ہوا ہے۔ تاہم کار پورچ میں ایک زرد رنگ کی وین اور ایک موٹر سائیکل کھڑی ہے۔ گھر کے باہر موجود چوکیدار اور ڈرائیور کے بقول پروفیسر کی بیوی اپنے تین بچوں کے ہمراہ گزشتہ شام کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہوچکی ہیں۔
ان ملازمین کا کہنا ہے کہ پروفیسر باقاعدگی سے جمعہ کی نماز قریبی مسجد میں ادا کرنے جایا کرتے تھے۔
مسلسل کوششوں کے باوجود پروفیسر کے برادر نسبتی منان، سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ نہ ہوسکا۔
پروفیسر افتخار کو اتوار کی رات ان کے گھر سے ان کے بھتیجے شیخ عثمان کی شکایت پر گرفتار کیا گیا اور اگلے روز ہی پولیس نے عدالت سے ملزم کا چار روز کا ریمانڈ حاصل کر لیا تھا۔
شکایت گزار کا کہنا ہے کہ ان کے چچا نے نہ صرف پاکستان میں متنازع کتاب کی تقسیم کی بلکہ ملک سے باہر اس کے اشاعت کا منصوبہ رکھتے تھے۔
’’ہم نے کئی بار اس سے کہا کہ وہ توہین آمیز خیالات کو ترک کریں مگر وہ باز نہ آئے تو آخر ہمیں ایسا کرنا پڑا۔‘‘
ان کے بقول گزشتہ چند سالوں سے ان کے اور پروفیسر کے خاندانوں میں قطع تعلق تھا۔
عثمان کے دعوے کے بر عکس پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پروفیسر نے اپنے بھتیجے کے خلاف ایک سول عدالت میں پہلے سے ہی ایک بھاری ہرجانے کا مقدمہ درج کر رکھا ہے۔
پاکستان کا توہین مذہب و رسالت کا قانون ہمیشہ سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر موضوع بحث رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون میں مبینہ سُقم ہونے کی وجہ سے اسے اکثر خاندانی تنازعات نمٹانے کے لیے مخالفین کے خلاف یا مذہبی اقلیتوں کو اذیت پہنچانے اور ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد کی ایک عدالت نے ایک کمسن بچی رمشا مسیح پر توہین اسلام کا مقدمہ اس انکشاف کے بعد خارج کردیا تھا کہ ایک مقامی مسجد کے امام نے اس مقدمے کو مضبوط بنانے کے لیے شواہد میں رد و بدل کی تھی۔
تاہم اس قانون میں ترمیم کے مخالفین ایسی ہر کوشش کو ’’اسلام دشمنی اور مغربی سازش‘‘ کے مترادف گردانتے ہیں۔ حکمران پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما اور پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اس قانون میں ترمیم کی حمایت کرنے پر گزشتہ سال چار جنوری کو ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس خرم رشید نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ رات پروفیسر کے گھر کی تلاشی کے دوران مبینہ توہین آمیز ’’مرتبہ حضور پاک‘‘ نامی کتاب کی دو کاپیاں ملی ہیں جو کہ انہوں نے اپنی ذاتی پرنٹنگ پریس سے چھپوائی تھیں۔
’’مواد تو مل گیا مگر کیا وہ توہین آمیز ہے؟ اس حوالے سے رائے ماہرین سے لی جائے گی۔ ہم یہ تحقیقات کررہے ہیں کہ کیا توہین رسالت ہوئی ہے اور کس نے کی ہے؟‘‘
انہوں نے کہا کہ بظاہر اس حرکت میں مبینہ طور پر صرف پروفیسر افتخار ہی ملوث ہیں اور یہ مواد دوسرے افراد میں تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔
پروفیسر کی اسلام آباد میں رہائش گاہ پر تالا لگا ہوا ہے۔ تاہم کار پورچ میں ایک زرد رنگ کی وین اور ایک موٹر سائیکل کھڑی ہے۔ گھر کے باہر موجود چوکیدار اور ڈرائیور کے بقول پروفیسر کی بیوی اپنے تین بچوں کے ہمراہ گزشتہ شام کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہوچکی ہیں۔
ان ملازمین کا کہنا ہے کہ پروفیسر باقاعدگی سے جمعہ کی نماز قریبی مسجد میں ادا کرنے جایا کرتے تھے۔
مسلسل کوششوں کے باوجود پروفیسر کے برادر نسبتی منان، سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ نہ ہوسکا۔
پروفیسر افتخار کو اتوار کی رات ان کے گھر سے ان کے بھتیجے شیخ عثمان کی شکایت پر گرفتار کیا گیا اور اگلے روز ہی پولیس نے عدالت سے ملزم کا چار روز کا ریمانڈ حاصل کر لیا تھا۔
شکایت گزار کا کہنا ہے کہ ان کے چچا نے نہ صرف پاکستان میں متنازع کتاب کی تقسیم کی بلکہ ملک سے باہر اس کے اشاعت کا منصوبہ رکھتے تھے۔
’’ہم نے کئی بار اس سے کہا کہ وہ توہین آمیز خیالات کو ترک کریں مگر وہ باز نہ آئے تو آخر ہمیں ایسا کرنا پڑا۔‘‘
ان کے بقول گزشتہ چند سالوں سے ان کے اور پروفیسر کے خاندانوں میں قطع تعلق تھا۔
عثمان کے دعوے کے بر عکس پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پروفیسر نے اپنے بھتیجے کے خلاف ایک سول عدالت میں پہلے سے ہی ایک بھاری ہرجانے کا مقدمہ درج کر رکھا ہے۔
پاکستان کا توہین مذہب و رسالت کا قانون ہمیشہ سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر موضوع بحث رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون میں مبینہ سُقم ہونے کی وجہ سے اسے اکثر خاندانی تنازعات نمٹانے کے لیے مخالفین کے خلاف یا مذہبی اقلیتوں کو اذیت پہنچانے اور ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد کی ایک عدالت نے ایک کمسن بچی رمشا مسیح پر توہین اسلام کا مقدمہ اس انکشاف کے بعد خارج کردیا تھا کہ ایک مقامی مسجد کے امام نے اس مقدمے کو مضبوط بنانے کے لیے شواہد میں رد و بدل کی تھی۔
تاہم اس قانون میں ترمیم کے مخالفین ایسی ہر کوشش کو ’’اسلام دشمنی اور مغربی سازش‘‘ کے مترادف گردانتے ہیں۔ حکمران پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما اور پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اس قانون میں ترمیم کی حمایت کرنے پر گزشتہ سال چار جنوری کو ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔