پاکستان کے سال دو ہزار بیس۔اکیس کے بجٹ میں کرونا وائرس کے خلاف اقدامات کے لئے مجموعی طور پر 112 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
"پوری دنیا کروناوائرس کی وجہ سے پریشان ہے، حتیٰ کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اور پاکستان نہ صرف کرونا کی وجہ سے پریشان ہے بلکہ اقتصادی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے۔ مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری اور ہم کرونا لاک ڈاؤن سے متاثرہ اپنی معیشت کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے اقدامات کرتے رہیں گے۔"
یہ الفاظ ہیں پاکستان کے وزیر برائے صنعت، حماد اظہر کے جنہوں نے سال دو ہزار بیس۔اکیس کیلئے پاکستان کا بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا۔ اس بجٹ میں کوئی نئے ٹیکس نہیں لگائے گئے مگر ساتھ ہی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس بجٹ میں حکومت کی کوئی دور رس منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ تاجر طبقہ بھی بجٹ سے زیادہ مطمئن نظر نہیں آتا مگر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ہر بجٹ کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، مگر اس مرتبہ کرونا وائرس کی وجہ سے قیمتوں کے مستحکم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کے اس بجٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ، پاکستان اکنامک ایڈوائزری کونسل اور نیشنل ایڈوائزری کمیٹی آف پلاننگ کمشن آف پاکستان کے رکن ڈاکٹر عابد قیوم سلیری کہتے ہیں کہ روایتی طور پر ملک کے سالانہ بجٹ میں چار 'ڈیز' کا خیال رکھا جاتا ہے جن میں ڈیٹ سروسنگ یا قرضوں کی ادائیگی، ڈیفینس یا دفاع، تیسرا ڈی ڈے ٹو ڈے ایڈمنسٹریشن یا حکومت چلانا اور چوتھا ڈی ڈیویلپمنٹ یا ترقی ہوتا ہے۔ مگر اس مرتبہ اس میں کرونا وائرس کی وجہ سے چار ایل بھی شامل ہوگئے جن میں ایک لائیوز یا زندگیاں، دوسرے لائیولی ہوڈ یا روزگار اور تیسرے لاک ڈاؤن جو لگایا جائے تو بھی حکومت پیسے دے اور نہ لگائے تو بھی پیسے دے اور چوتھا ایل لوکسٹ یعنی ٹڈی دل۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اس بجٹ کو کرونا سے متاثرہ صورتِ حال کا بجٹ قرار دے کر اس میں کوئی ترقیاتی اہداف بیان نہ کرتی، کیونکہ ان کا پورا کرنا ممکن ہی نہیں ہے؛ اور چند ہی ماہ میں تمام اعشاریے نیچے آتے دکھائی دیں گے، تو بجٹ کے اعدادوشمار کی کوئی حقیقت نہیں رہے گی۔
پاکستان کے اس بجٹ کے بارے میں ماہرین کی آرا مختلف ہیں مگر سب اس بات پر متفق ہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے حکومت کی مشکلات غیر معمولی ہیں اور اس کی وجہ سے ایک چھوٹی معیشت کا سکڑنا کوئی انہونی بات نہیں۔
پاکستان میں مائیکرو فنانس بنک کے سابق صدر اور مارکیٹنگ اور فنانس کے کنسلٹنٹ فائق حسین کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ایسا ہی بجٹ آ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی آمدنی اور اخراجات کا فرق تین ہزار پانچ سو ارب روپے کا ہے اور اب زرِ مبادلہ اور برآمدات میں بھی کمی ہوئی ہے تو حکومت کے پاس مزید قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں خواہ یہ قرض سٹیٹ بنک سے لیا جائے یا عام بنکوں سے۔
ڈاکٹر سلیری کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ مزید قرضے لے مگر اس سے بھی ضروری یہ بات ہے کہ وہ قرضے سٹیل ملز جیسے ناکام ہوتے اداروں کو سنبھالنے کیلئے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کیلئے بیرونی قرضوں سے زیادہ اندرونِ ملک لئے گئے قرضوں کی ادائیگی مشکل ہو رہی ہے۔
پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں پاکستان کو جی ٹوینٹی کے پروگرام کے تحت پیرس کلب کی جانب سے مہلت دی گئی ہے۔ یہ مہلت ایک سال کیلئے ہے اور ڈاکٹر عابد سلیری کہتے ہیں کہ یہ بھی کافی ہے حکومت کو کچھ وقت مل جائے گا۔
ماہرِ اقتصادیات قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان کو وقتی سہولت حاصل ہوئی ہے اس لئے اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں ایشیا سٹڈیز کے ڈئریکٹر شکیل احمد رامے کہتے ہیں کہ پاکستان اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر یہ رقم اپنے فوری اخراجات میں استعمال کر سکتا ہے۔
اور فائق حسین کہتے ہیں کہ پاکستان نے ان قرضوں کی ادئیگی کیلئے صرف ایک سال کی مہلت حاصل کی، جبکہ ان کے خیال میں ایسا کم از کم تین سال کیلئے ہونا چاہئے تھا تاکہ پاکستان کے پاس ادئیگی کے قابل ہونے کی بہتر گنجائش ہوتی۔
فائق حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان کا زرعی شعبہ ملک کی آمدنی بڑھا سکتا ہے مگر اس کی جانب توجہ نہیں دی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا نے ملکوں کو نئی مصنوعات کی راہ دکھائی ہے مگر پاکستان میں ایسا کوئی رجحان نظر نہیں آتا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ کسی بھی وباء میں تیزی آتی ہے، پھر کمی اور پھر تیزی آتی ہے اور پھر یہ ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس کے اثرات شدید ہیں، کیونکہ پاکستان میں عام حالات میں بھی صحتِ عامہ کی صورتِ حال زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔
کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے حکومت کی مختص کردہ رقم کے بارے میں سارک، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر اور ڈئریکٹر کومن ویلتھ میڈیکل ٹرسٹ ہیلتھ انیشیئٹیو، ڈاکٹر عمر ایوب کہتے ہیں یہ رقم اس وقت ناکافی سمجھی جائے گی جب روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کووڈ کے مریض سامنے آرہے ہیں، ڈاکٹر اور صحت کا دیگر عملہ کووڈ کا شکار ہو رہا ہے۔ اور بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ انہوں نے کہا کہ صحت کا عملہ جان سے جا رہا ہے مگر ان کے لواحقین کیلئے کوئی مالی مدد موجود نہیں؛ نہی حکومت کی طرف سے ان کیلئے کسی فنڈ کا اعلان کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کرونا کی صورتِ حال ابتر ہوتی جارہی ہے، ڈاکٹر نہ بچے تو علاج کون کرے گا۔
ڈاکٹر عمر نے کہا کہ چاہئے تو یہ تھا کہ اس بجٹ میں صحت کی مد میں زیادہ رقم رکھی جاتی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو کرونا کی تباہی سے بچانا ہے تو حکومت کو کوئی واضح پروگرام سامنے لانا ہوگا اور اس پر سختی سے عمل کروانا ہوگا، ورنہ موت ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔۔۔کیا وہ اس کا استقبال کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5