پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی موجودہ نزاکت کا اعتراف کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ ’’جلد بازی اور جذبات‘‘ میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گا جو مستقبل میں منفی اثرات کا باعث بنے۔
وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے اسلام آباد میں منگل کو اپنی کابینہ کے پہلے باضابطہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کے لیے ساز و سامان کی ترسیل پر پابندی سلالہ کی سرحدی چوکی پر گزشتہ سال نیٹو کے ’’بلا اشتعال‘‘ فضائی حملے کے ردِ عمل میں لگائی گئی۔ مگر اُنھوں نے سات ماہ سے جاری اس بندش پر حکومتی فیصلے کے بارے میں کوئی خیال آرائی نہیں کی۔
’’اس حملے پر امریکہ کی جانب سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ (پاکستان کی) پارلیمان نے کیا ہے اور اور ہمیں ہمیشہ قومی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیئے۔‘‘
26 نومبر کو مہمند ایجنسی میں ہونے والے اس حملے میں پاکستان کے 24 فوجی ہلاک ہو ئے تھے، جس کے بعد پاک امریکہ تعلقات غیر معمولی گشیدگی کا شکار ہو گئے۔
پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی ملک کی سلامتی اور قومی یک جہتی کے لیے بڑا چیلنج ہیں جس سے بحیثیت قوم نمٹنا ہوگا۔ اُن کے بقول حکومت اپنے طور پر ہر اُس جگہ ریاست کی عمل داری کو یقینی بنائے گی جہاں یہ عناصر سرگرم ہیں۔
’’ہم اپنی سرزمیں کسی دوسرے ملک میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ، ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارے ہمسائے اور دیگر طاقتیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں گے۔‘‘
اُنھوں نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب حالیہ دنوں میں مبینہ طور پر افغان سرحد کی جانب سے پاکستانی علاقے میں داخل ہونے والے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ایک درجن سے زائد فوجی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے بقول پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جو اپنے پڑوسی ممالک، افغانستان اور بھارت کے علاوہ اسلامی ملکوں، امریکہ، چین اور یورپ سے اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔
پرویز اشرف نے ملک میں توانائی کے بحران اور امن و امان بالخصوص بلوچستان کی صورت حال کو ’’انتہائی سنجیدہ‘‘ معاملات قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر حکومت ان سے موثر انداز میں نبرد آزما نا ہوئی تو یہ ’’جمہوریت کی بنیادوں کو بھی ہلا سکتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے الزام لگایا کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے خلاف حالیہ ہفتوں کے دوران کیے گئے منفی پروپیگنڈا کے باعث عوام کی ’’دل شکنی‘‘ ہو رہی ہے۔
’’ہمیں کچھ خاص کرنا ہوگا تاکہ قوم کو دل شکستگی (کی کیفیت) سے نکال کر اُن کی مثبت سمت میں پیش رفت کی حوصلہ افزائی ہو۔‘‘
پرویز اشرف نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل ان کی ترجیح ہے اور وہ ملک میں اور بیرون ملک مقیم بلوچ رہنماؤں کو گفت و شنید سے اس مسئلے کے احسن حل کے لیے دعوت دیتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت زراعت کے شعبے کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتی ہے اور توانائی کے بحران کو اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔
مزید برآں وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے قومی فضائی کمپنی پی آئی اے، واپڈا، ریلوے اور اسٹیل ملز سمیت دیگر سرکاری اداروں کو اپنی پیشہ وارانہ کارکردگی پر توجہ دینے پر بھی زور دیا۔
وفاقی کابینہ میں پیر کی شب توسیع کی گئی تھی جس کے بعد اس میں شامل وزراء کی تعداد 53 ہو گئی ہے جب کہ وزیر اعظم تین مشیران کی نامزدگی بھی کر چکے ہیں جنھیں وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے پیپلز پارٹی کی اہم اتحادی مسلم لیگ (ق) کے سینیئر رہنما اور وزیر برائے دفاعی پیدا وار چودھری پرویز الہٰی کو نائب وزیر اعظم بھی نامزد کیا ہے۔