پاکستان میں قومی شناختی کارڈز کی ازسرنو تصدیق کی مہم کا جمعہ کو آغاز ہو گیا ہے جو کہ دو ماہ تک جاری رہے گی۔
مئی میں بلوچستان میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر مںصور کی ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد یہ انکشاف ہوا تھا کہ انھوں نے ولی محمد کے نام سے پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر رکھا تھا۔
اس پر وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے تمام شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کرنے کا اعلان کیا تھا۔
شہریوں کے کوائف کے اندراج کے قومی ادارے "نادرا" نے اس ضمن میں اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جس پر لوگ کسی بھی مشتبہ شناختی کارڈ سے متعلق اطلاع دے سکتے ہیں۔ وقف شدہ ہیلپ لائن پر روزانہ دس ہزار ٹیلی فون کالز اور ڈیڑھ لاکھ ایس ایم ایس موصول کیے جا سکیں گے۔
علاوہ ازیں نادرا کی طرف سے ہر خاندان کے سربراہ کو ایک ایس ایم ایس بھیجا جائے گا جس میں نادرا کے ریکارڈ کے مطابق اس گھر کے افراد کی تفصیل درج ہوگی۔ اگر اس میں کوئی اضافی شخص ہو تو اس کی اطلاع ادارے کو دی جا سکتی ہے۔
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے شناختی دستاویزات کی تصدیق دوبارہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن لوگوں نے بھی جعلی کارڈز بنوا رکھے ہیں تو وہ رضا کارانہ طور پر واپس کر دیں بصورت دیگر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی جعلی شناختی کارڈ کے حامل کی مصدقہ اطلاع دے گا تو اسے دس ہزار روپے انعام بھی دیا جائے گا۔
سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کے عمل کو خوش آئند قرار دیا لیکن ان کے بقول آیا اس سے سو فیصد نتائج حاصل ہو سکیں گے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے علاقے جہاں پیدائشی سرٹیفیکیٹ یا ڈومیسائل وغیرہ اب بھی کمپیوٹر نظام سے منسلک نہیں وہاں اس کمی کو پورا کر کے جعلی دستاویزات کے حصول کو روکنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا حصول ایک مشکل اور صبر آزما کام رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں کوائف کے اندراج کے قومی ادارے نے اس ضمن میں خاطر خواہ اقدام کر کے لوگوں کو سہولت فراہم کی ہے۔
تاہم ایسے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں کہ جن میں مبینہ طور پر رشوت دے کر لوگ شناختی دستاویزات حاصل یا ان میں ردوبدل کروا لیتے ہیں۔