یو ایس ایڈ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’’اگر آپ کا بچہ پاکستان میں پیدا ہو تو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اس بات کے امکانات کم ہوتے ہیں کہ آپ کا بچہ پہلے دن زندہ رہ سکے۔‘‘
واشنگٹن —
ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں کسی بھی ملک میں اگر دس فیصد بچے بیماریوں کا شکار ہو جائیں تو وہاں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں یہ تناسب چوالیس فیصد ہے جہاں بچے پیدائش کے فوراً بعد یا پھر پانچ سال کی عمر سے قبل ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے اُن کی اکثریت موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ ان بیماریوں کی بنیادی وجہ غذائی قلت ہے۔
یہ بات امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یو ایس اے آئی ڈی‘ کے پاکستان میں مشن ڈائریکٹر گریگوری گوٹلیئب نے واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دوران کہی۔
گریگوری کا کہنا تھا کہ ’’اگر آپ کا بچہ پاکستان میں پیدا ہو تو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اس بات کے امکانات کم ہوتے ہیں کہ آپ کا بچہ پہلے دن زندہ رہ سکے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ غذائی قلت نو مولود بچوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جب کہ اس بات کے بھی نو فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ نومولود بچہ پانچ سال کی عمر سے قبل ہی موت کے منہ میں نا چلا جائے۔
حال ہی میں سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں درجنوں بچوں کی اموات بھی اس کی ایک مثال ہے۔
پاکستان میں اس وقت بھی پانچ سال سے کم عمر میں سے پندرہ فیصد بچے ایسے ہیں جو شدید بیماریوں میں مبتلا ہیں اور اس صورت حال میں بچوں کی ذہنی نشوو نما بھی نہیں ہو سکتی ہے۔
گریگوری پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے تجربے کی بنیاد پر اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کو جن معاشی و سماجی مسائل کا سامنا ہے اُن سے ملک میں جمہوریت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
’’ایسا نہیں ہے کہ عوام جمہوری نظام کی بجائے کوئی اور نظام چاہتے ہیں بلکہ موجودہ معاشی صورتحال سے نمٹنا یقیناً ہر جمہوری حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں عوام کی نمائندگی ہے اور ’’ہمیں نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کے عوام کو حالیہ انتخابات پر فخر ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ملک میں جمہوری نظام چل سکتا ہے۔‘‘
امریکی ادارہ بین الاقوامی ترقی پاکستان میں تعلیم، صحت اور مواصلاتی نظام سمیت دیگر کئی شعبوں میں معاونت کر رہا ہے۔ تاہم دہشت گردی کے باعث بعض علاقوں میں اس ادارے کے عہدیداروں کو براہ راست ترقی کے کاموں کی نگرانی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں یہ تناسب چوالیس فیصد ہے جہاں بچے پیدائش کے فوراً بعد یا پھر پانچ سال کی عمر سے قبل ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے اُن کی اکثریت موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ ان بیماریوں کی بنیادی وجہ غذائی قلت ہے۔
یہ بات امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یو ایس اے آئی ڈی‘ کے پاکستان میں مشن ڈائریکٹر گریگوری گوٹلیئب نے واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دوران کہی۔
گریگوری کا کہنا تھا کہ ’’اگر آپ کا بچہ پاکستان میں پیدا ہو تو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اس بات کے امکانات کم ہوتے ہیں کہ آپ کا بچہ پہلے دن زندہ رہ سکے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ غذائی قلت نو مولود بچوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جب کہ اس بات کے بھی نو فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ نومولود بچہ پانچ سال کی عمر سے قبل ہی موت کے منہ میں نا چلا جائے۔
حال ہی میں سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں درجنوں بچوں کی اموات بھی اس کی ایک مثال ہے۔
پاکستان میں اس وقت بھی پانچ سال سے کم عمر میں سے پندرہ فیصد بچے ایسے ہیں جو شدید بیماریوں میں مبتلا ہیں اور اس صورت حال میں بچوں کی ذہنی نشوو نما بھی نہیں ہو سکتی ہے۔
گریگوری پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے تجربے کی بنیاد پر اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کو جن معاشی و سماجی مسائل کا سامنا ہے اُن سے ملک میں جمہوریت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
’’ایسا نہیں ہے کہ عوام جمہوری نظام کی بجائے کوئی اور نظام چاہتے ہیں بلکہ موجودہ معاشی صورتحال سے نمٹنا یقیناً ہر جمہوری حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں عوام کی نمائندگی ہے اور ’’ہمیں نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کے عوام کو حالیہ انتخابات پر فخر ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ملک میں جمہوری نظام چل سکتا ہے۔‘‘
امریکی ادارہ بین الاقوامی ترقی پاکستان میں تعلیم، صحت اور مواصلاتی نظام سمیت دیگر کئی شعبوں میں معاونت کر رہا ہے۔ تاہم دہشت گردی کے باعث بعض علاقوں میں اس ادارے کے عہدیداروں کو براہ راست ترقی کے کاموں کی نگرانی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔