چین کی خلائی تحقیق کے قومی ادارے سی این ایس اے کے ایک بیان کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے دوران خلائی تحقیق میں پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کے ایک سمجھوتے پر بھی دستخط کیے گئے جس کے تحت چین پاکستان کی خلائی تحقیق کی ٹیکنالوجی میں تعاون فراہم کرے گا۔
اس معاہدے کے تحت چین اور پاکستان مشترکہ طور پر خلانورد خلا میں بھیجیں گے اور خلائی تحقیق کے دیگر شعبوں میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔
چین کی خلائی تحقیق کے ادارے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے سے دونوں دوست ممالک کے درمیان تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اس معاہدے پر چین اور پاکستان کے خلائی تحقیق کے اداروں کے سربراہوں نے دستخط کیے۔
معاہدے کے تحت دونوں ملک مل کر سائنسی اور ٹیکنیکی ترقی کے تجربات کریں گے اور خلابازوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ خلابازوں اور خلائی گاڑیوں کو خلا میں بھیجنے کے سلسلے میں اشتراک کریں گے۔
اس تعاوں کو آگے بڑھانے کے لیے چینی خلائی تحقیق کا ادارہ’’ سی این ایس اے‘‘ اور پاکستان کا خلائی تحقیق کا ادارہ ’’سپارکو‘‘ چین۔ پاکستان سپیس کمیٹی تشکیل دیں گے جس کی سربراہی دونوں ملکوں کے خلائی اداروں کے سربراہ کریں گے۔ یہ کمیٹی مستقبل میں خلا سے متعلق مزید ایسے پروگرام ترتیب دے گی جس میں دونوں ملک اشتراک کر سکیں۔
پاکستان نے چین کی مدد سے 2018 میں دو سیٹلائٹ زمین کے مدار میں بھیجے تھے۔ ان میں سے ایک پاکستان کا اولین آپٹکل ریموٹ سینسنگ سٹلائٹ PRSS-1 تھا جب کہ ایک اور چھوٹا مشاہداتی سٹلائٹ PakTES-1A چین کے لانگ مارچ کیریئر راکٹ کے ذریعے مدار میں بھیجا گیا۔
چینی ادارہ برائے بین الاقوامی تدریس کے ریسرچ فیلو لین جیان شوے نے اخبار گلوبل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے اور وہ خلائی تحقیق کے شعبے میں پاکستان کو ٹیکنیکل پیش رفت سے متعلق معلومات فراہم کرے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ محض بنیادی ڈھانچے اور وسائل تک ہی محدود نہیں ہو گا بلکہ اس کے تحت پاکستان کو خلائی ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی کی جائے گی۔
لین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان اپنے سیٹلائٹس کے ذریعے ملک میں قدرتی آفات، زرعی پیداوار، زمینی سروے اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کی مہمات کی نگرانی بھی کر سکے گا۔