موسمیات کے ماہرین نے نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ موسمی تبدیلی کے زرعی پیداوار پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ سطح سمندر سے تین ہزار میٹر یا اس سے کم بلندی والے پہاڑی علاقوں پر درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے وہاں گلیشئیرز بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
محکمے کی حال ہی میں جاری ’’پاکستان میں موسمی تبدیلی 2012 ‘‘ نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی علاقوں میں گزشتہ ایک دہائی سے برف باری اب شاذو نادر ہوتی ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ غلام رسول نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان تحقیقات میں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں پر دس گلیشئیرز پر بدلتے ہوئے موسمی اثرارت اور مقامی لوگوں کے مشاہدات کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت کے علاوہ جنگلات کی کٹائی اور پہاڑی علاقوں میں تیزی سے آباد کاری میں اضافہ ان موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلیشیئر کے جلد پگھلنے کی وجہ سے زیریں علاقوں میں آنے والے سیلابوں میں حالیہ برسوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
’’گلیشئیر سے بننے والی جھیلیں اور پھر ان میں شگاف تشویش کا باعث ہے۔ اب وہاں برف باری کی بجائے بارشیں ہوتی ہیں اور اس کا بانی ان جھیلوں میں جمع ہو جاتا ہے جو کہ کناروں کو توڑتے ہوئے باہر نکل جاتا ہے۔‘‘
غلام رسول کا کہنا تھا کہ سطح سمندر سے چار ہزار میٹر بلند علاقوں میں تاہم درجہ حرارت کی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی اور گلیشئیرز کے حجم میں قدرے اضافہ بھی ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ سیاچن پر پاکستان اور بھارت کی فوجوں کی موجودگی سے وہاں کے گلیشئیر کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور گزشتہ دو دہائیوں میں گلیشئیر کی لمبائی میں تقریباً 6 کلو میٹر کمی آئی ہے۔ غلام رسول کے بقول سیاچن کا شمار دنیا کے بڑے گلیشئیرز میں ہوتا ہے۔
حکام کے مطابق سیاچن میں فوجیوں کی ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ شدید موسم یا موسمی آفات ہیں نہ کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کی فوجوں میں لڑائی۔ گزشتہ سال اپریل میں سیاچن میں گیاری سیکٹر میں پاکستانی پوسٹ پر برفانی تودہ گرنے سے 100 سے زائد فوجی ہلاک ہوئے۔
’’ان گلیشیئرز کا بچاؤ صرف پاکستان نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ سیاچن کے قریب بھارت کی طرف بھی گلیشیئرز کی حالت کچھ اچھی نہیں۔ تو اس قدرتی خزانے کو بچانا چاہیے۔‘‘
محکمہ موسمیات کے اعلیٰ عہدےدار غلام رسول نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ موسمی تبدیلی کے ملک میں زرعی پیداوار پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔
’’اب بہار کا موسم تو تقریباً ختم ہی ہوگیا ہے۔ سردیوں کے بعد فوراً گرمیاں آجاتی ہیں اور جو گندم کے دانے کو بھرپور افزائش کا وقت درکار ہوتا ہے وہ نہیں مل پاتا اور اس وجہ سے گندم کی پیداوار میں کمی ہوتی ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش مل کر دنیا کا سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ بناتے ہیں جبکہ یہ دنیا کا تیسرا بڑا برف کا ذخیرہ ہے اور ایشیاء کے سات بڑے دریائی نظام کے ذریعے 17 ارب لوگوں کی خوراک کا وسیلہ ہے۔
محکمے کی حال ہی میں جاری ’’پاکستان میں موسمی تبدیلی 2012 ‘‘ نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی علاقوں میں گزشتہ ایک دہائی سے برف باری اب شاذو نادر ہوتی ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ غلام رسول نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان تحقیقات میں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں پر دس گلیشئیرز پر بدلتے ہوئے موسمی اثرارت اور مقامی لوگوں کے مشاہدات کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت کے علاوہ جنگلات کی کٹائی اور پہاڑی علاقوں میں تیزی سے آباد کاری میں اضافہ ان موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلیشیئر کے جلد پگھلنے کی وجہ سے زیریں علاقوں میں آنے والے سیلابوں میں حالیہ برسوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
’’گلیشئیر سے بننے والی جھیلیں اور پھر ان میں شگاف تشویش کا باعث ہے۔ اب وہاں برف باری کی بجائے بارشیں ہوتی ہیں اور اس کا بانی ان جھیلوں میں جمع ہو جاتا ہے جو کہ کناروں کو توڑتے ہوئے باہر نکل جاتا ہے۔‘‘
غلام رسول کا کہنا تھا کہ سطح سمندر سے چار ہزار میٹر بلند علاقوں میں تاہم درجہ حرارت کی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی اور گلیشئیرز کے حجم میں قدرے اضافہ بھی ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ سیاچن پر پاکستان اور بھارت کی فوجوں کی موجودگی سے وہاں کے گلیشئیر کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور گزشتہ دو دہائیوں میں گلیشئیر کی لمبائی میں تقریباً 6 کلو میٹر کمی آئی ہے۔ غلام رسول کے بقول سیاچن کا شمار دنیا کے بڑے گلیشئیرز میں ہوتا ہے۔
حکام کے مطابق سیاچن میں فوجیوں کی ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ شدید موسم یا موسمی آفات ہیں نہ کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کی فوجوں میں لڑائی۔ گزشتہ سال اپریل میں سیاچن میں گیاری سیکٹر میں پاکستانی پوسٹ پر برفانی تودہ گرنے سے 100 سے زائد فوجی ہلاک ہوئے۔
’’ان گلیشیئرز کا بچاؤ صرف پاکستان نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ سیاچن کے قریب بھارت کی طرف بھی گلیشیئرز کی حالت کچھ اچھی نہیں۔ تو اس قدرتی خزانے کو بچانا چاہیے۔‘‘
محکمہ موسمیات کے اعلیٰ عہدےدار غلام رسول نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ موسمی تبدیلی کے ملک میں زرعی پیداوار پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔
’’اب بہار کا موسم تو تقریباً ختم ہی ہوگیا ہے۔ سردیوں کے بعد فوراً گرمیاں آجاتی ہیں اور جو گندم کے دانے کو بھرپور افزائش کا وقت درکار ہوتا ہے وہ نہیں مل پاتا اور اس وجہ سے گندم کی پیداوار میں کمی ہوتی ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش مل کر دنیا کا سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ بناتے ہیں جبکہ یہ دنیا کا تیسرا بڑا برف کا ذخیرہ ہے اور ایشیاء کے سات بڑے دریائی نظام کے ذریعے 17 ارب لوگوں کی خوراک کا وسیلہ ہے۔