پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں منگل کی صبح نامعلوم مسلح افراد نے پانچ کان کنوں کو اغوا کر لیا جن کی تلاش کے لیے سکیورٹی فورسز نے کارروائی شروع کر دی ہے۔
حکام کے مطابق پاکستان مائنز ڈویلپمنٹ کے زیر انتظام کوئلے کی ایک کان میں کام کرنے والے مزدور سورینج کے علاقے میں اپنے کام کے لیے پہنچے تو وہاں نامعلوم مسلح افراد نے انھیں ایک چوکیدار اور ڈرائیور سمیت اغوا کر لیا۔
اغوا کار ان لوگوں کو قریبی پہاڑیوں میں لے گئے جہاں ڈرائیور اور چوکیدار کو کچھ دیر کے بعد رہا کر دیا گیا لیکن پانچ کان کن اب بھی ان کے قبضے میں ہیں۔
مغویوں کی تلاش کے لیے لیویز اہلکاروں نے علاقے میں کارروائی شروع کردی لیکن تاحال اس ضمن میں انھیں کوئی کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔
بلوچستان کے تین اضلاع کوئٹہ، بولان اور لورالائی کے مختلف علاقوں میں زیر زمین کوئلے کے بڑے بڑے ذخائر ہیں جہاں سے کوئلہ نکالنے کے لیے تقریباً پچاس ہزار افراد کام کرتے ہیں۔
بلوچستان میں کان کنوں کے اغوا کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی سورینج، مارواڑ، سنجدی، مچھ ، ہرنائی اور دُکی سے کان کنوں کو اغوا کیا جاتا رہا ہے جن میں سے بعض کو قتل بھی کیا گیا۔
پاکستان مائنز ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے زیر انتظام چلنے والی کوئلے کی اس کان میں مارچ 2011 میں گیس بھر جانے سے دھماکا بھی ہوا تھا جس میں 50 سے زائد کان کن ہلاک ہو گئے تھے۔
قدرتی وسائل سے مالامال لیکن پاکستان کے اس پسماندہ ترین صوبے میں امن و امان کی صورتحال غیر تسلی بخش چلی آرہی ہے جب کہ آئے روز شدت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز اور سرکاری املاک پر حملوں کے علاوہ ہدف بنا کر قتل کرنے اور اغوا کی وارداتوں کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔
پیر کو بھی نصیرآباد کے علاقے میں ایک مسافر گاڑی نامعلوم شدت پسندوں کی طرف سے نصب بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی تھی جس سے کم ازکم پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
صوبائی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کے باعث یہاں صورتحال ماضی کی نسبت خاصی بہتر ہوئی ہے۔