ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی روپوشی اور دو مئی کو امریکی اسپیشل فورسز کے خفیہ آپریشن کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے نامزدکردہ پانچ رکنی کمیشن پر حزب اختلاف اور قانونی حلقے تنقید کر رہے ہیں۔
بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما نوازشریف نے کہا کہ اُنھیں تحقیقاتی کمیشن پر اعتراض ہے کیوں کہ اس کی تشکیل میں اُن کی جماعت مسلم لیگ (ن) سے مشاورت نہیں کی گئی ہے۔ ”اس (اقدام) سے پارلیمان کی تذلیل ہوئی ہے۔“
کمیشن کے ایک نامزد رکن معروف قانون داں جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم نے وازیر اعظم گیلانی کے نام اپنے ایک خط میں کمیشن سے لا تعلقی کا اظہارکیا ہے اور کہا ہے کہ اسکے بارے میں انہیں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔
لیکن حکمران پیپلز پارٹی سے منسلک وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے تحقیقاتی کمیشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کمیشن کی رکنیت کے لیے اُن شخصیات کا انتخاب کیا گیا ہے جن کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ”یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ایک آزاد اور خودمختار کمیشن پر یقین رکھتی ہے۔“
تیرہ اور چودہ مئی کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد میں ایبٹ آباد واقعہ سے جڑے معاملات کی شفاف انداز میں چھان بین کے لیے وزیر اعظم گیلانی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان کی باہمی مشاورت سے ایک غیر جانبدار تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کیا گیا تھا ۔
وزیراعظم گیلانی نے منگل کی شب سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن کی تشکیل کا اعلان کیا جس کے دیگر چار ارکان سابق جج جسٹس فخرالدین جی ابراہیم، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد، سابق انسپکٹر جنرل پولیس عباس خان اور سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ناتو یہ واضح کیا گیا ہے یہ کمیشن کتنے عرصے میں اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کر ے گا اور نہ ہی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ آیا کمیشن تحقیقات کے سلسلے میں کسی بھی ادارے کے عہدیداروں کو طلب کر کے اس سے پوچھ گچھ کرنے کا اختیار رکھتا ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کی صدرعاصمہ جہانگیر نے بھی اس کمیشن کے سربراہ کی تقرری کو’غیرقانونی‘قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر سپریم کورٹ کے کسی جج کو اضافی ذمہ داری نہیں سونپی جاسکتی ہے۔