اقوام متحدہ کے عہدیداروں کے مطابق کراچی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نسرین جمال افغانستان میں عالمی تنظیم کے ادارہ برائے اطفال سے منسلک تھی جو کابل بم حملے میں موت کا شکار ہوئیں۔
اسلام آباد —
پاکستان نے افغان دارالحکومت کابل میں ایک ریسٹورنٹ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس میں ہونے والے جانی نقصان پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔
جمعہ کو کابل میں مقیم غیر ملکیوں میں مقبول ایک لبنانی ریسٹورنٹ پر طالبان شدت پسندوں نے خودکش حملہ اور فائرنگ کر کے امریکی و برطانوی شہریوں سمیت 21 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
مرنے والوں میں لبنان سے تعلق رکھنے والا عالمی مالیاتی فنڈ کا ایک عہدیدار بھی شامل تھا جب کہ اقوام متحدہ کے چار کارکن بھی اس واقعے میں ہلاک ہوئے۔
اتوار کو پاکستانی دفترخارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ اس حملے میں ایک پاکستانی شہری بھی ہلاک ہوئیں جو افغانستان میں اقوام متحدہ سے منسلک تھیں۔ تاہم اس کی شناخت کے بارے میں بیان میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
لیکن اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نسرین جمال افغانستان میں عالمی تنظیم کے ادارہ برائے اطفال سے منسلک تھی جو کابل بم حملے میں موت کا شکار ہوئیں۔
مزید برآں دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستان حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی تمام صورتوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔
افغانستان میں حالیہ مہینوں کے دوران طالبان شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور یہ سب ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب رواں سال کے اواخر تک ملک سے ایک منصوبے کے تحت تمام بین الاقوامی افواج کا انخلا مکمل ہونے جا رہا ہے۔
پاکستان بارہا اس امر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی بھر پور معاونت کا یقین دلا چکا ہے اور اس کے عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ ایک مستحکم و محفوظ افغانستان پاکستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔
یہ تازہ حملہ کابل کے جس علاقے میں ہوا وہاں متعدد ملکوں کے سفارتخانوں کے علاوہ غیر ملکی تنظیموں کے دفاتر بھی واقع ہیں اور اس کا شمار شہر کے حساس علاقوں میں ہوتا ہے۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس قدر حساس علاقے میں حملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے اس کے جنگجو بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد ملک پر دوبارہ تسلط حاصل کرنے کے قابل ہیں۔
امریکہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی ایک محدود تعداد میں موجودگی کو قابل عمل بنانے کے لیے ایک سکیورٹی معاہدے کو منظور کرنے پر کابل انتظامیہ سے اصرار کرتا آیا ہے۔ تاہم افغان صدر حامد کرزئی اس پر دستخط سے تاحال پس و پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔
مبصرین بھی ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ افغانستان سے ایک ساتھ تمام غیر ملکی افواج کے انخلا اور مقامی سکیورٹی فورسز کی کمزور پوزیشن کی وجہ سے طالبان شدت پسند ایک بار پھر زور پکڑ سکتے ہیں جو کہ جنگ سے تباہ حال اس ملک اور خطے کی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
جمعہ کو کابل میں مقیم غیر ملکیوں میں مقبول ایک لبنانی ریسٹورنٹ پر طالبان شدت پسندوں نے خودکش حملہ اور فائرنگ کر کے امریکی و برطانوی شہریوں سمیت 21 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
مرنے والوں میں لبنان سے تعلق رکھنے والا عالمی مالیاتی فنڈ کا ایک عہدیدار بھی شامل تھا جب کہ اقوام متحدہ کے چار کارکن بھی اس واقعے میں ہلاک ہوئے۔
اتوار کو پاکستانی دفترخارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ اس حملے میں ایک پاکستانی شہری بھی ہلاک ہوئیں جو افغانستان میں اقوام متحدہ سے منسلک تھیں۔ تاہم اس کی شناخت کے بارے میں بیان میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
لیکن اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نسرین جمال افغانستان میں عالمی تنظیم کے ادارہ برائے اطفال سے منسلک تھی جو کابل بم حملے میں موت کا شکار ہوئیں۔
مزید برآں دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستان حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی تمام صورتوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔
افغانستان میں حالیہ مہینوں کے دوران طالبان شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور یہ سب ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب رواں سال کے اواخر تک ملک سے ایک منصوبے کے تحت تمام بین الاقوامی افواج کا انخلا مکمل ہونے جا رہا ہے۔
پاکستان بارہا اس امر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی بھر پور معاونت کا یقین دلا چکا ہے اور اس کے عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ ایک مستحکم و محفوظ افغانستان پاکستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔
یہ تازہ حملہ کابل کے جس علاقے میں ہوا وہاں متعدد ملکوں کے سفارتخانوں کے علاوہ غیر ملکی تنظیموں کے دفاتر بھی واقع ہیں اور اس کا شمار شہر کے حساس علاقوں میں ہوتا ہے۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس قدر حساس علاقے میں حملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے اس کے جنگجو بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد ملک پر دوبارہ تسلط حاصل کرنے کے قابل ہیں۔
امریکہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی ایک محدود تعداد میں موجودگی کو قابل عمل بنانے کے لیے ایک سکیورٹی معاہدے کو منظور کرنے پر کابل انتظامیہ سے اصرار کرتا آیا ہے۔ تاہم افغان صدر حامد کرزئی اس پر دستخط سے تاحال پس و پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔
مبصرین بھی ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ افغانستان سے ایک ساتھ تمام غیر ملکی افواج کے انخلا اور مقامی سکیورٹی فورسز کی کمزور پوزیشن کی وجہ سے طالبان شدت پسند ایک بار پھر زور پکڑ سکتے ہیں جو کہ جنگ سے تباہ حال اس ملک اور خطے کی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔