پاکستان نے افغان سرحد پر قائم باقاعدہ گزرگاہوں کا استعمال کرنے والے ہزاروں افراد کی نگرانی کے لیے اقدامات سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے اتوار کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان گزشتہ تین سالوں سے ان سرحدی گزرگاہوں کا استعمال کرنے والوں کی شناخت کا موثر نظام یعنی بایومیٹرکس کو بحال کرنے کی درخواستیں کرتا آیا ہے لیکن افغان حکومت نے ان کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی حکام کو اپنی حدود میں امیگریشن چیک پوسٹس قائم کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔ ’’وہ (افغانستان) اپنی طرف پوسٹیں بنائیں یا نا بنائیں ہم بغیر اندراج کے کسی کو نا جانے دیں گے اور نا ہی آنے دیں گے۔‘‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یومیہ 50 ہزار افراد پاک افغان سرحد کے آر پار سفر کرتے ہیں اور شناخت کے موثر نظام کی عدم موجودگی میں مشتبہ افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا انتہائی مشکل ہے۔
’’ہمیں کیا معلوم کے کون دہشت گرد ہے اور کس (عسکریت پسند) گروہ سے تعلق ہے۔‘‘
رحمن ملک نے ایک متربہ پھر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر عسکریت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کرنے کے امریکی الزامت کی تردید کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا حقانی نیٹ ورک سے کوئی تعلق نہیں لیکن اگر کسی ملک کے پاس اس گروہ کے پاکستانی سرزمین پر ٹھکانوں کے بارے میں ٹھوس شواہد ہیں تو وہ پاکستان کو فراہم کیے جائیں کیوں کہ اس کی افواج شدت پسندی سے نمٹنے کی مکمل اہلیت رکھتی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کی حمایت درکار ہے۔