جنرل کیانی نے انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں حکومت اور پارلیمان کے کردار پر بلواسطہ طور پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مہم میں فوج کی کامیابی عوام کے تعاون سے مشروط ہے۔
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ نے انسدادِ دہشت گردی کی مہم سے اختلاف کی صورت میں ملک میں خانہ جنگی کا انتباہ کیا ہے۔
شمالی شہر ایبٹ آباد میں پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے)، کاکول میں پیر اور منگل کی درمیانی شب منعقد ہونے والی سالانہ ’’آزادی پریڈ‘‘ سے خطاب میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اہم ترین قومی مسئلہ قرار دیا۔
اُنھوں نے شدت پسندی کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیوں پر بعض بنیاد پرست حلقوں کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو اس بات پر شک نہیں ہونا چاہیئے کہ بندوق کے زور پر انتہاپسندانہ سوچ دوسروں پر مسلط کرنا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔
’’اگر انتہاپسندی اور دہشت گردی کا یہی مفہوم ہے تو اس کے خلاف جنگ ہماری ہے اور پوری طرح حق بجانب بھی۔ اس بارے میں کوئی بھی شک ہمیں تقسیم کر دے گا اور خانہ جنگی کی طرف لے جائے گا۔‘‘
جنرل کیانی نے انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں حکومت اور پارلیمان کے کردار پر بلواسطہ طور پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مہم میں فوج کی کامیابی عوام کے تعاون سے مشروط ہے، اور یہ اُسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوگی جب سول انتظامیہ فوج کی مدد کے بغیر قبائلی علاقوں میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو جائے گی۔
’’اس میں کچھ مزید وقت ضرور لگے گا ... ساتھ ہی ساتھ یہ انتہائی ضروری ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ضروری قوانین بنائے جائیں۔ دنیا بھر میں قانون سازی ہوئی لیکن بدقسمتی سے ہم سست روی کا شکار رہے ہیں۔‘‘
اپنی تقریر میں پاکستانی فوج کے سربراہ نے اُن مسائل کی بھی کھل کر نشاندہی کی جن پر ناقدین کے بقول حکومتِ پاکستان زیادہ توجہ نہیں دے سکی ہے کیوں کہ وہ عدلیہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات میں الجھی ہوئی ہے۔
’’آپ ملک کی موجودہ تشویش ناک اقتصادی صورت حال، بد عنوانی و کرپشن اور معمول کی شہری سہولتوں کی روز بروز بگڑتی ہوئی حالت کے بارے میں پاکستان کے عوام کی پریشانیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ہمیں ان مشکلات نے اتنا جکڑ رکھا ہے کہ ہم مجبوراً ان روز مرہ کی پریشانیوں سے آگے کچھ دیکھنے سے قاصر ہیں۔‘‘
تاہم جنرل کیانی نے فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کو ملک کے موجودہ حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
’’ماضی کی غلطیوں میں ہم سب برابر کے شریک ہیں، کچھ زیادہ اور کچھ کم۔ ماضی کا ماتم کرتے رہنے سے آج تک کسی قوم نے ترقی نہیں کی۔ منزل پانے کے لیے آگے دیکھنا ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں، حال کی تعمیر کریں اور مستقبل پر نظر رکھیں۔‘‘
فوج کے سپہ سالار نے کہا کہ پاکستان مخالف قوتیں ملک کے موجودہ حالات اور یہاں پائی جانے والی بے چینی کا فائدہ اُٹھا رہی ہیں، مگر جنرل کیانی کے بقول ان عناصر پر لعن طعن کے بجائے قوم کو یکسوئی کے ساتھ اندرونی معاملات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
شمالی شہر ایبٹ آباد میں پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے)، کاکول میں پیر اور منگل کی درمیانی شب منعقد ہونے والی سالانہ ’’آزادی پریڈ‘‘ سے خطاب میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اہم ترین قومی مسئلہ قرار دیا۔
اُنھوں نے شدت پسندی کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیوں پر بعض بنیاد پرست حلقوں کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو اس بات پر شک نہیں ہونا چاہیئے کہ بندوق کے زور پر انتہاپسندانہ سوچ دوسروں پر مسلط کرنا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔
’’اگر انتہاپسندی اور دہشت گردی کا یہی مفہوم ہے تو اس کے خلاف جنگ ہماری ہے اور پوری طرح حق بجانب بھی۔ اس بارے میں کوئی بھی شک ہمیں تقسیم کر دے گا اور خانہ جنگی کی طرف لے جائے گا۔‘‘
جنرل کیانی نے انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں حکومت اور پارلیمان کے کردار پر بلواسطہ طور پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مہم میں فوج کی کامیابی عوام کے تعاون سے مشروط ہے، اور یہ اُسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوگی جب سول انتظامیہ فوج کی مدد کے بغیر قبائلی علاقوں میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو جائے گی۔
’’اس میں کچھ مزید وقت ضرور لگے گا ... ساتھ ہی ساتھ یہ انتہائی ضروری ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ضروری قوانین بنائے جائیں۔ دنیا بھر میں قانون سازی ہوئی لیکن بدقسمتی سے ہم سست روی کا شکار رہے ہیں۔‘‘
اپنی تقریر میں پاکستانی فوج کے سربراہ نے اُن مسائل کی بھی کھل کر نشاندہی کی جن پر ناقدین کے بقول حکومتِ پاکستان زیادہ توجہ نہیں دے سکی ہے کیوں کہ وہ عدلیہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات میں الجھی ہوئی ہے۔
’’آپ ملک کی موجودہ تشویش ناک اقتصادی صورت حال، بد عنوانی و کرپشن اور معمول کی شہری سہولتوں کی روز بروز بگڑتی ہوئی حالت کے بارے میں پاکستان کے عوام کی پریشانیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ہمیں ان مشکلات نے اتنا جکڑ رکھا ہے کہ ہم مجبوراً ان روز مرہ کی پریشانیوں سے آگے کچھ دیکھنے سے قاصر ہیں۔‘‘
تاہم جنرل کیانی نے فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کو ملک کے موجودہ حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
’’ماضی کی غلطیوں میں ہم سب برابر کے شریک ہیں، کچھ زیادہ اور کچھ کم۔ ماضی کا ماتم کرتے رہنے سے آج تک کسی قوم نے ترقی نہیں کی۔ منزل پانے کے لیے آگے دیکھنا ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں، حال کی تعمیر کریں اور مستقبل پر نظر رکھیں۔‘‘
فوج کے سپہ سالار نے کہا کہ پاکستان مخالف قوتیں ملک کے موجودہ حالات اور یہاں پائی جانے والی بے چینی کا فائدہ اُٹھا رہی ہیں، مگر جنرل کیانی کے بقول ان عناصر پر لعن طعن کے بجائے قوم کو یکسوئی کے ساتھ اندرونی معاملات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔