کامرہ حملہ: فوج سمیت دیگر ادارے تنقید کی زد میں

پاکستانی فضائیہ کی کامرہ میں تنصیب کا مرکزی داخلی راستہ

قومی دفاع سے متعلق انتہائی حساس تنصیب تک طالبان کی رسائی فوج اور دیگر اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان میں حکام نے کہا ہے کہ کامرہ میں فضائیہ کی ائربیس پر مشتبہ طالبان عسکریت پسندوں کے حملے میں شدید زخمی ہونے والا ایک فوجی اہلکار اسپتال میں چل بسا، جس کے بعد سرکاری ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر دو ہو گئی ہے۔

اسلام آباد سے 75 کلومیٹر کی دوری پر منہاس ائربیس کو جمعرات کو طلوع آفتاب سے قبل ہدف بنانے والے خود کش بمباروں کی تعداد نو بتائی گئی ہے جو جدید ہتھیاروں اور راکٹ بموں سے مسلح تھے۔

ان میں سے آٹھ بیس کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے جہاں وہ سکیورٹی فورس کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے، جب کہ باہر رہ جانے والے اُن کے ساتھی نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔

وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ پاکستانی فضائیہ کی اعلٰی تحقیقاتی ٹیم مہناس بیس پر حملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے اور اس امکان کو بھی مدنظر رکھا جائے گا کہ حملہ آوروں کو عملے کے ارکان میں سے کسی کی حمایت حاصل تھی یا نہیں۔

اُنھوں نے جمعہ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹرز، کراچی میں مہران نیول بیس اور کامرہ میں فضائیہ کی تنصیبات پر حالیہ حملے کی کڑیاں شمالی و جنوبی وزیرستان سے ملتی ہیں۔

رحمٰن ملک


’’کامرہ میں حملہ کرنے والوں میں چار کی نشاندہی کی جا چکی ہے جن کا تعلق شمالی یا جنوبی وزیرستان ہے۔ یہ علاقہ ہمارے لیے ایک مصیبت بنتا جا رہا ہے اس لیے ہمیں اس کے بارے میں سوچنا ہوگا۔‘‘

لیکن مقامی میڈیا اور اکثر ناقدین اس سرکاری موقف سے متفق نہیں کہ سکیورٹی فورسز کی شاندار کارکردگی کی بدولت کم سے کم جانی و مالی نقصان کو یقینی بناتے ہوئے انتہائی کم وقت میں خودکش بمباروں کو ہلاک کرکے ان کے عزائم ناکام بنا دیے گئے۔

مبصرین کے بقول یہ ’’چھوٹی سی تسلی‘‘ اس سوال کا جواب نہیں کہ بھاری ہتھیاروں سمیت عسکریت پسند دیدہ دلیری کے ساتھ قومی دفاع سے متعلق اس قدر حساس تنصیب کے اندر داخل ہونے میں کیونکر کامیاب ہوئے۔

روزنامہ ’ڈان‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے فوج اور قومی دفاع سے متعلق تنصیبات پر حملوں کے رجحان میں اضافے کے بعد ان کی بہتر حفاظت کی اُمید رکھنا غلط نہیں۔
بظاہر فوج عسکر یت پسندی کی ایسی مصیبت سے دوچار نظر آتی ہے جس کی شدت کا درجہ عوام سے پوشیدہ ہے
روزنامہ ڈان


اخبار لکھتا ہے کہ پچھلے حملوں کی طرح کامرہ حملے میں بھی عسکریت پسندوں کو اندرونی مدد حاصل ہونے کا کافی امکان ہے۔

’’انتہا پسند اسلامی خیالات سے لے کر عسکریت پسندوں کی براہ راست حمایت کرنے والوں تک، بظاہر فوج عسکر یت پسندی کی ایسی مصیبت سے دوچار نظر آتی ہے جس کی شدت کا درجہ عوام سے پوشیدہ ہے کیونکہ تفتیش اور کورٹ مارشل کا عمل اکثر خفیہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔‘‘

پاکستانی فوج میں انتہا پسندانہ رجحانات کی نشاندہی رواں ماہ پانچ افسران کا کورٹ مارشل کی سزائیں دینے سے بھی ہوتی ہے۔

اس مقدمے میں ایک بریگیڈیئر علی خان کو انتہا پسند اسلامی نظریات کی نمائندہ کالعدم تنظیم ’حزب التحریر‘ سے رابطوں کے جرم میں پانچ سال قید بامشقت سنائی گئی تھی۔

اُن کے ساتھ چار دیگر ماتحت فوجی افسران کو بھی کم مدت کی قید بامشقت کی سزائیں دی گئں۔

قومی اسمبلی


لیکن فوج سمیت قومی سلامتی سے متعلق دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ بعض ناقدین خاص طور پر پاکستان کے موجودہ حکمرانوں اور پارلیمان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا موثر کردار ادا نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

قبائلی علاقوں اور ملحقہ بندوبستی اضلاع میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن میں گرفتار کیے جانے والے مشتبہ افراد کے خلاف مقدمات چلا کر عدالتوں سے انھیں کڑی سزائیں دلانے کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں اصلاحات کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

قوانین میں خامیوں کا فائدہ اُٹھا کر اکثر مشتبہ افراد سزا سے بچ نکلتے ہیں اور عدم تحفظ کے احساس کے باعث حقائق سے آگاہ ہونے کے باوجود گواہ ایسے مقدمات میں پیش ہونے سے گریز کرتے ہیں۔