پاکستان کے فوجی اور سیاسی رہنماؤں نے کہا ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف کوششوں میں اساتذہ اور طالب علموں کو حکومت کی مدد کرنا ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس اور وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے دارالحکومت اسلام آباد کی ایک بڑی یونیورسٹی میں معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے خلاف ذرائع ابلاغ کے کردار پر پیر کو منعقد ہونے والے ایک سیمینار سے خطاب میں کیا۔
دونوں رہنماؤں کا موقف تھا کہ ریاستی ادارے ملک میں انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں لیکن اس مہم کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ دانشور، اساتذہ، طلباوطالبات اور ملک کا میڈیا بھی اس میں اپنا کردار ادا کرے۔
سیمنار سے خطاب میں فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے شورش سے سب سے زیادہ متاثر شمال مغربی علاقوں میں تعلیم کے فقدان کو شدت پسندی کی بنیادی وجہ قرار دیا اور اس مسئلے کے حل کے لیے غیر رسمی تعلیم اور میڈیا کے استعمال پر زور دیا۔
’’اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام طبقات میں نا بٹا ہو، ایک ہو اور وہاں تک پہنچے جہاں تک اس وقت نا ہونے کی وجہ سے وہ علاقے اور معاشرہ شورش کا شکار ہو گیا ہے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ملک میں تشدد اور انتہاپسندی کی ہلاکت خیز لہر کا الزام ایک بار پھر 1980ء کی دہائی میں افغانستان پر قابض روسی افواج کے خلاف مزاحمت کو دیا جس کے لیے بین الاقوامی طاقتوں نے پاکستان کو استعمال کیا اور مقصد پورا ہونے پر اسے تنہا چھوڑ دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ وہ اس تنقید سے ہرگز اتفاق نہیں کرتے کہ شدت پسندی کے خلاف جنگ اب پاکستان کی اپنی لڑائی نہیں ہے کیوں کہ نا صرف یہ پاکستان کی سرزمین پر لڑی جا رہی ہے بلکہ اس میں ہلاک ہونے والے پاکستان کے شہری اور سکیورٹی فورسز ہیں۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ 1990ء میں روسی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں مختلف دھڑوں کے درمیان خانہ جنگی اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت کے خلاف مزاحمت کو فروغ دینے میں افغان جہاد کے وقت تیار کی گئی انتہاپسند تنظیموں کی پاکستانی فوج کی حمایت نے ان عناصر کو ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا۔