پاکستان کے ایوان بالا یا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے کہا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر افغانستان میں امریکہ کے خلاف ’بلواسطہ جنگ‘ لڑنے کے الزامات انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
قائمہ کمیٹی کے منگل کو اسلام آباد میں اجلاس کے بعد اس کی تفصیلات سے صحافیوں کو آگاہ کرتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ جاوید اشرف قاضی نے بتایا کہ اراکین کی متفقہ رائے تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی مشترکہ کوششوں کے بغیر ناممکن ہے۔
’’ہمیں دہشت گردوں کا مل کر مقابلہ کرنا چاہیئے، (لیکن) جو حالات پیدا کیے جا رہے ہیں ان کا فائدہ صرف دہشت گردوں کو ہوگا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ امریکی عہدے داروں کی طرف سے پاکستان اور اس کے اداروں پر الزام تراشی نا امریکہ اور نا ہی پاکستان کے حق میں ہے۔
جاوید اشرف قاضی نے بھی امریکی عہدے داروں کے حالیہ بیانات کی مذمت کرتے ہوئے انھیں جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ اگر امریکہ کے پاس ان الزامات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں تو اُنھیں منظر عام پر لایا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر انسداد دہشت گردی سے متعلق حکمت عملی پر امریکہ کے پاکستان سے کوئی اختلافات ہیں تو اُنھیں سفارتی انداز میں بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔
کمیٹی کے اجلاس میں امریکی الزامات اور دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، اور آئی ایس آئی اور فوجی عہدے داروں نے قانون سازوں کو قومی سلامتی کی صورت حال پر بریفنگ بھی دی۔
کمیٹی اراکین نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے جمعرات کو کُل جماعتی کانفرنس بلانے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اس بات پر زور دیا کہ موجودہ بحران سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے تمام سیاسی رہنماؤں کے درمیان اتفاق رائے وقت کی اہم ضرورت ہے۔
امریکہ کے سبک دوش ہونے والے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن کے الزامات کے تناظر میں پاکستان میں سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے مستقبل میں ایک متفقہ حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے صلاح و مشورے جاری ہیں۔