پاکستان کی سراغ رساں ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ پر عسکریت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک سے گٹھ جوڑ اور افغانستان میں بلواسطہ جنگ لڑنے کے براہ راست امریکی الزامات کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت کا ایک خصوصی اجلاس ہواجی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوا۔
فوج کےترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے مطابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں ’’ملک میں سلامتی کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا گا۔‘‘ اُنھوں نے مزید تفصیلات نہیں دیں۔
کورکمانڈرز اجلاس امریکہ کی جانب سے حالیہ الزام تراشی کے تناظر میں ہنگامی طور پر بلایا گیا تھا۔
اتوار کو امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل جیمز میٹیز نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں سے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے اُمور سمیت خطے کی صورت حال زیر غور آئی۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ جنرل وائیں نے امریکہ کی جانب سے منفی بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات میں پائے جانے والے اُن اشتعال انگیز معاملات کا حل تلاش کرنے پر زور دیا جو اُن کے بقول ایک انتہائی پیچیدہ صورت حال کا نتیجہ ہیں۔
جنرل وائیں کا کہنا تھا کہ پاکستانی افواج نے خطے میں پائیدار امن قائم کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور یہ ہدف صرف باہمی اعتماد اورتعاون کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جنرل میٹیز نے ہفتہ کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملاقات کی تھی۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ جنرل میٹیز نے پاکستان کی عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں پاک امریکہ فوجی سرگرمیوں، افغانستان میں اتحادی مہم، اور وسیع تر علاقائی اُمور پر معمول کی بات چیت کی، اور ’’فوجی رہنماؤں نے پاک امریکہ تعلقات میں درپیش حالیہ چیلنجوں پر بھی بلا تکلف تبادلہ خیال کیا۔‘‘
امریکی جنرل نے پاکستانی اور افغان عوام کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی سلامتی کی کوششوں میں پاکستانی فوج کے اہم کردار کو سراہا اور خطے میں امریکہ، پاکستان اور دیگر ملکوں کی افواج کے درمیان مسلسل روابط کی ضرورت پر زور دیا۔
دریں اثنا پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اتوار کو حکمران اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مختلف رہنماؤں سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے قومی سلامتی کے اُمور پر تبادلہ خیال کیا اور اُنھیں سلامتی کی صورت حال اور پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔
وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام سیاسی رہنماؤں نے ان حالات میں ایک متفقہ حکمت عملی وضع کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلانے پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے تاہم کانفرنس کے لیے تاریخ کا اعلان وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی امریکہ سے وطن واپسی پر کیا جائے گا۔
ایک روز قبل مسٹر گیلانی نے امریکی الزامات کی ایک مرتبہ پھر تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ امریکہ کی ’’گھبراہٹ اور حکمت عملی میں بد نظمی‘‘ کی ایک علامت ہیں۔ اُنھوں نے حالیہ الزام تراشی کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
غیر ملکی سفارت کاروں اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے نمائندوں کو پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنے کے لیے ہفتہ کی شب منعقد کی گئی ایک تقریب سے خطاب کے دوران وزیر اعظم گیلانی نے موضوع سے ہٹ کر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ’’اس (پروپیگنڈا) سے ماحول میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور یہ غیر سود مند بھی ہے۔ یہ پاکستانی عوام کی قربانیوں کو نظر انداز کرتا ہے اور اس سے اُن تمام کوششوں کی بھی بظاہر نفی ہوتی ہے جو ہم نے گزشتہ کئی سالوں کے دوران کی ہیں۔‘‘
دونوں ملکوں کے تعلقات امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے جمعرات کو دیے گئے اس بیان کے بعد ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہو گئے ہیں جس میں اُنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے حقاقی نیٹ ورک سے روابط ہیں جو اُن کے بقول کابل میں امریکی سفارت خانے پر گزشتہ ہتفے ہونے والے ایک منظم حملہ میں بھی ملوث ہے۔
اس حملے کے بعد امریکہ کے وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا تھا کہ اُن کا ملک اپنے فوجیوں اور مفادات کی حفاظت کے لیے ہرممکن اقدامات کرے گا، جس کے بعد ان قیاس آرائیوں میں اضافہ ہو گیا کہ امریکہ پاکستانی سر زمین پر یک طرفہ کارروائیاں کر سکتا ہے۔
تاہم نیو یارک میں موجود پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ہفتہ کو ایک پاکستانی نیوز چینل سے گفتگو میں متنبہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے بھی قوائد و ضوابط موجود ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہیئے۔
اُنھوں نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر آپ کے متعدد اہداف حاصل نہیں ہو سکیں، تو آپ کسی اور کو قربانی کا بکرا نہیں بنا سکتے۔‘‘