پاکستان کی عدالت عظمٰی نے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل ’بول‘ سے وابستہ میزبان عامر لیاقت کے پروگرام کو عارضی طور پر نشر نا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عامر لیاقت ’بول‘ ٹی وی پر ایک پروگرام ’’ایسے نہیں چلے گا‘‘ کے میزبان ہیں اور گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو پاکستان میں ’الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی‘ (پیمرا) نے اُن کے پروگرام کو نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
پیمرا کے مطابق عامر لیاقت نے اپنے پروگرام میں مبینہ طور منافرت پر مبنی الفاظ استعمال کیے تھے۔
لیکن ’بول‘ نے پیمرا کے نوٹیفکیشن کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور عدالت عالیہ سے حکم امتناع حاصل کرنے کے بعد عامر لیاقت نے پروگرام جاری رکھا۔
الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے کی طرف سے پابندی کے باوجود جب ’بول‘ ٹی وی پر عامر لیاقت کا پروگرام نشر ہوتا رہا تو پیمرا کی طرف سے ٹیلی ویژن انتظامیہ کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری کیا گیا۔
جس پر ’بول‘ ٹی وی نے سندھ ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی اور اُسی بنا پر پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا گیا۔
نوٹس ملنے کے بعد پیمرا کے چیئرمین نے سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی تھی، جس کی سماعت چھ فروی کو عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس امیر مسلم ہانی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
پیر کو ہونے والی سماعت کے موقع پر عدالت نے ’بول‘ ٹی وی کی انتظامیہ سے کہا کہ نفرت انگیز مواد پر مبنی پروگرام کو فوری طور پر بند کرنے کی تحریری یقین دہانی کروائی جائے، بصورت دیگر مذکورہ پروگرام کو مستقل طور پر بند کرنے کا حکم دیا جا سکتا ہے۔
جس پر ٹی وی انتظامیہ کی طرف سے عدالت کو یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ عامر لیاقت کا پروگرام تاحکم ثانی نشر نہیں کیا جائے گا۔
عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ اس یقین دہانی کے باوجود اگر پروگرام نشر کیا گیا تو پروگرام کے میزبان اور دیگر معاونین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اب اس معاملے کی آئندہ سماعت آٹھ فروری ہو گی۔
عامر لیاقت نے ’بول‘ ٹی وی پر اپنے پروگرام ’’ایسے نہیں چلے گا‘‘ میں گزشتہ ماہ لاپتا ہونے والے پانچ بلاگرز کے بارے میں مبینہ طور پر منافرت پر مبنی الفاظ استعمال کیے تھے۔
جس کے خلاف پیمرا کے مطابق اُسے سیکڑوں شکایات موصول ہوئی تھیں۔
پیمرا کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ کئی ہفتوں تک پروگراموں کی مسلسل نگرانی کے بعد ہی اس پابندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
عامر لیاقت کے پروگرام کے خلاف پیمرا میں درخواست جمع کروانے والے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن جبران ناصر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ کسی انسان کو مذہب کی بنیاد پر نفرت یا تعصب پھیلانے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والے پانچ بلاگرز جو لاپتا ہوئے تھے وہ اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں۔