پاکستان کی ایک عدالت عالیہ نے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والے ایک شخص کو بری کرنے کا حکم دیا ہے۔
پنجاب کے علاقے تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والے صوفی محمد اسحٰق پر 2009ء میں کچھ لوگوں کی طرف سے توہین مذہب کا الزام عائد کیا تھا جس پر پولیس نے مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کر لیا تھا۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق ملزم ایک مذہبی شخصیت ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے پیروکاروں میں شامل ہے۔ وہ ایک عرصے تک امریکہ میں مقیم رہنے کے بعد 2009ء میں ہی وطن واپس آئے تھے۔
انھیں ایک ماتحت عدالت نے 2012ء میں سزائے موت کے علاوہ دس سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
اس سزا کے خلاف ملزم کے وکیل نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں درخواست جمع کروائی تھی جس پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے انھیں بری کرنے کا حکم دیا۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے جس کی قانون میں تو سزا موت ہے لیکن ایسے کئی واقعات دیکھنے میں آچکے ہیں کہ جن میں مشتعل افراد ملزم کو قانون کی گرفت میں آنے سے قبل ہی ہلاک کر دیتے رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں ایسے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں کہ جن میں ذاتی عناد کی وجہ سے کسی شخص نے کسی دوسرے پر توہین مذہب کے ارتکاب کا الزام لگایا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک عرصے سے حکومتوں سے یہ مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے موثر اقدام کیے جائیں۔ موجودہ حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ حکومت اس قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے پرعزم ہے۔
انسانی حقوق کی موقر غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین کامران عارف کہتے ہیں کہ ملک میں رائج نظام انصاف میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ فوجداری مقدمات میں ملزمان کی طرف سے کی جانے والی اپیلوں کی باری جب آتی ہے تو اس وقت تک پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا "پاکستان کا جو پورا نظام انصاف ہے مجموعی طور پر اسے دوبارہ سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اصلاحات کا عمل تو بہت لمبا ہے لیکن یہ ہونی چاہیئں کیونکہ ہمارے قوانین بہت پرانے ہیں۔۔۔فوجداری ہوں یا سول مقدمات جو بنیادی مسئلہ ہے وہ ان کی (سماعت میں) تاخیر کا ہے۔"
ملک کی عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیرالتوا ہیں اور ایک عرصے سے مختلف حلقوں کی طرف سے بھی یہ مطالبات سامنے آتے رہے ہیں کہ عدالتی کارروائی کو موثر بنانے کے لیے ٹھوس اصلاحات لائی جائیں۔