پاکستان کی ایک ذیلی عدالت نے لال مسجد کے سابق نائب خطیب غازی عبدالرشید کے مقدمہ قتل میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انھیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد کی ایک عدالت نے ہفتہ کو اس مقدمے میں پرویز مشرف کو عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے مسترد کر دیا اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ ملزم کو گرفتار کر کے 16 مارچ کو عدالت کے روبرو پیش کرے۔
عبدالرشید جولائی 2007ء میں لال مسجد میں ہوئے فوجی آپریشن میں ہلاک ہو گئے تھے اور ان کے لواحقین نے اس واقعے کا مقدمہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف دائر کروا رکھا ہے جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ آپریشن اس وقت کے آرمی چیف اور صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم پر کیا گیا تھا۔
پرویز مشرف یہ کہتے آئے ہیں کہ مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسے جامعہ حفصہ میں شدت پسندوں کی موجودگی کے خلاف اور ریاست کی عملداری کو بحال رکھنے کے لیے یہ فوجی کارروائی دیگر متعلقہ عہدیداروں کی مشاورت سے کی گئی تھی۔
سابق صدر کے وکلا کی ٹیم میں شامل چودھری فیصل حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پرویز مشرف اپنی ناسازی طبع کی وجہ سے سفر نہیں کر سکتے اور اسی بنا پر عدالت میں ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی گئی تھی۔
ان کے بقول عدالتی حکم کے خلاف اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔
اسی مقدمے میں اس سے قبل بھی پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں لیکن ملزم کے ان کے خلاف عدالت عالیہ سے رجوع کیا جو انھیں کالعدم قرار دے چکی ہے۔
پرویز مشرف نے اگست 2008ء میں صدر پاکستان کے منصب سے مستعفی ہو کر بعد ازاں جلاوطنی اختیار کر لی تھی۔
2010ء میں انھوں نے سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ قائم کی اور پھر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے 2013ء میں ملک واپس آئے تھے۔
ان کے خلاف پاکستان میں آئین شکنی کے علاوہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔