وفاقی دارالحکومت کی ایک عدالت نے وزیراعظم نوازشریف، تین وفاقی وزراء اور اعلیٰ پولیس عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
حکومت مخالف پاکستان تحریک انصاف نے ضلعی عدالت میں درخواست دی تھی ک 31 اگست کو اسلام آباد میں پولیس کی طرف سے ان کے حامیوں کے خلاف کی گئی کارروائی میں دو کارکن ہلاک ہوگئے تھے اور اس کارروائی کا مبینہ حکم وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے دیا تھا۔
وزیراعظم کے خلاف اس نوعیت کا یہ تیسرا مقدمہ ہوگا۔
اس سے قبل حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ایک اور جماعت پاکستان عوامی تحریک نے بھی 31 اگست کو مظاہرین پر پولیس کی شیلنگ اور مبینہ فائرنگ سے کارکنوں کی ہلاکت پر وزیراعظم کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔
عوامی تحریک نے جون میں لاہور میں اپنے دفتر پر پولیس کے کریک ڈاؤن میں اپنے 14 کارکنوں کی ہلاکت کے خلاف بھی مقدمے میں وزیراعظم کو نامزد کیا ہوا ہے۔
وزیراعظم کے علاوہ اس میں ان کے چھوٹے بھائی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر ریلوے سعد رفیق، پنجاب، ریلوے اور اسلام آباد پولیس کے سربراہان کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف اور عوامی تحریک 15 اگست سے اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنا دیے ہوئے ہیں اور یہ وزیراعظم سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں۔
31 اگست کو ان جماعتوں کے کارکنوں نے پارلیمنٹ ہاؤس سے وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تھی جس دوران ان کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی۔ اس میں چار افراد ہلاک اور ایک سو پولیس اہلکاروں سمیت پانچ سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
حکمران مسلم لیگ ن کے ایک رہنما صدیق الفاروق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وزیراعظم کے خلاف مقدمات کے اندراج پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
"شکایت اپنی جگہ، ایف آئی آر کا درج ہونا اپنی جگہ، لیکن قانون کیا ہے وہ قانون سامنے آجائے گا۔ ایسی کوئی وزیراعظم کی یا ان وزراء کی نہ نیت تھی اور نہ کسی کے قتل میں یہ ملوث ہیں بلکہ انھوں نے تو پولیس سے اسلحہ ہی لے لیا۔ اس لیے ہمیں چیزوں سے کوئی ڈر نہیں ہے اور نہ ہم کسی قسم کی قانونی پیچیدگی میں پھنستے ہیں، عدالتوں کو اپنا فیصلہ کرنے دیں اور پولیس حقائق دیکھ کر کارروائی کرے گی جیسا کہ عدالت نے اسے کہا ہے۔"
وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی ایک درخواست بھی تحریک انصاف نے عدالت عظمیٰ میں دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت پیر سے ایک تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔
احتجاجی جماعتیں اب بھی پارلیمان کے سامنے شاہراہ دستور اور ڈی چوک پر براجمان ہیں جب کہ ان اختلافات و مطالبات کے حل سے متعلق کی جانے والی مذاکراتی کوششیں تاحال بے سود ہی ثابت ہوئی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اب ان کے احتجاج کا دائرہ اسلام آباد سے نکل کر ملک کے دیگر شہروں تک پھیلے گا۔
صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا۔
"دھرنا جاری رہے گا، لیکن اب دھرنا آزادی چوک سے آگے بڑھے گا، جیسے یہ کراچی آیا اب لاہور آئے گا پھر ملتان اور پھر کوئٹہ جائے گا۔"
مبصرین اس سیاسی کشیدگی کو ملک کی مجموعی اقتصادی اور سلامتی کی صورتحال کے لیے مضر قرار دیتے ہوئے معاملات کو افہام و تفہیم سے جلد حل کرنے پر زور دیتے آرہےہیں۔
لیکن وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے معاملے کو لے کر نہ تو حکومت اور نہ ہی احتجاجی جماعتیں اپنے موقف میں کسی طرح کی لچک کا مظاہرہ کر رہی ہیں جس بنا پر سیاسی کشیدگی کے فوری حل کے امکانات بظاہر دکھائی نہیں دیتے۔