پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ 90 فیصد واقعات میں ملوث جرائم پیشہ عناصر کی جانب افغان موبائل فون کمپنیوں کے جاری کردہ کنیکشنز کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خواہ کی عدالتِ عالیہ نے موبائل فون سروسز سے متعلق حکام اور نجی کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ دیگر ممالک کی کمپنیوں کے جاری کردہ غیر مصدقہ کنیکشنز کا پاکستان میں استعمال بند کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے بدھ کو از خود نوٹس کی سماعت کے دوران کہا کہ حالیہ مہینوں میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ 90 فیصد واقعات میں ملوث عناصر افغان موبائل فون کمپنیوں کے جاری کردہ کنیکشنز استعمال کرتے ہیں۔
اُن کے بقول افغان موبائل فون کنیکشنز کو فعال بنانے کے لیے درکار سمز کا پاکستان میں حصول معمولی بات ہے۔
جسٹس دوست محمد خان نے برہمی کا اظہار اور مقامی کمپنیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والی سرمایہ کاری کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
نامور وکیل اور پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدالتِ عالیہ کے احکامات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ برائی کا خاتمہ اس کے ابتدائی مراحل میں ہی کیا جانا چاہیئے۔
’’یہ درست سمت میں قدم اٹھایا گیا ہے ... سمز کی فروخت کی کڑی نگرانی ہونی چاہیئے۔‘‘
پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران ہونے والے مہلک بم دھماکوں میں حکام کے بقول موبائل فونز کو بارودی مواد میں دھماکا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ان فونز میں عمومی طور پر ملکی و غیر ملکی کمپنیوں سے جعلی کوائف کے اندراج کے بعد حاصل کی گئی سمز استعمال ہوئیں۔
علاوہ ازیں ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی ملزمان ایسی سمز کا استعمال کرتے ہیں تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے موبائل فونز کے ریکارڈ کی مدد سے ان تک نا پہنچ سکیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے بدھ کو از خود نوٹس کی سماعت کے دوران کہا کہ حالیہ مہینوں میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ 90 فیصد واقعات میں ملوث عناصر افغان موبائل فون کمپنیوں کے جاری کردہ کنیکشنز استعمال کرتے ہیں۔
اُن کے بقول افغان موبائل فون کنیکشنز کو فعال بنانے کے لیے درکار سمز کا پاکستان میں حصول معمولی بات ہے۔
جسٹس دوست محمد خان نے برہمی کا اظہار اور مقامی کمپنیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والی سرمایہ کاری کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
نامور وکیل اور پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدالتِ عالیہ کے احکامات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ برائی کا خاتمہ اس کے ابتدائی مراحل میں ہی کیا جانا چاہیئے۔
’’یہ درست سمت میں قدم اٹھایا گیا ہے ... سمز کی فروخت کی کڑی نگرانی ہونی چاہیئے۔‘‘
پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران ہونے والے مہلک بم دھماکوں میں حکام کے بقول موبائل فونز کو بارودی مواد میں دھماکا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ان فونز میں عمومی طور پر ملکی و غیر ملکی کمپنیوں سے جعلی کوائف کے اندراج کے بعد حاصل کی گئی سمز استعمال ہوئیں۔
علاوہ ازیں ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی ملزمان ایسی سمز کا استعمال کرتے ہیں تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے موبائل فونز کے ریکارڈ کی مدد سے ان تک نا پہنچ سکیں۔