سپریم کورٹ میں سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 10 سال ہو گئے ہیں اور ابھی تک فحاشی کی تعریف تک نہیں پہنچا جا سکا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا ہے کہ فحاشی کی واضح تعریف تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔
پاکستانی ٹی وی چینلز پر فحش اور غیر اخلاقی مواد نشر کیے جانے کے خلاف دائر درخواستوں کی پیر کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پیمرا نے اپنا کام کیا ہوتا تو یہ سب کنٹرول ہو سکتا تھا۔
سابق جج وجیہہ الدین اور جماعت اسلامی کے سابق سربراہ قاضی حسین احمد کی طرف سے دائر ان درخواستوں کی سماعت عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔
بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 10 سال ہو گئے ہیں اور ابھی تک فحاشی کی تعریف تک نہیں پہنچ سکا۔ ان کے بقول ہر شخص کے نزدیک فحاشی اور مخرب الاخلاق کی اپنی تعریف ہے۔
اس سے پیمرا کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا تھا کہ نہ ہی حکومت کے پاس ٹی وی پروگراموں خصوصاً غیر ملکی چینلز کی نگرانی کرنے کی کوئی پالیسی تھی اور نہ ہی فحاشی کی واضح تعریف۔
عدالت عظمیٰ نے پیمرا کو تمام فریقوں کے ساتھ مل کر اس بارے میں کسی واضح موقف تک پہنچنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
پاکستانی ٹی وی چینلز پر فحش اور غیر اخلاقی مواد نشر کیے جانے کے خلاف دائر درخواستوں کی پیر کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پیمرا نے اپنا کام کیا ہوتا تو یہ سب کنٹرول ہو سکتا تھا۔
سابق جج وجیہہ الدین اور جماعت اسلامی کے سابق سربراہ قاضی حسین احمد کی طرف سے دائر ان درخواستوں کی سماعت عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔
بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 10 سال ہو گئے ہیں اور ابھی تک فحاشی کی تعریف تک نہیں پہنچ سکا۔ ان کے بقول ہر شخص کے نزدیک فحاشی اور مخرب الاخلاق کی اپنی تعریف ہے۔
اس سے پیمرا کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا تھا کہ نہ ہی حکومت کے پاس ٹی وی پروگراموں خصوصاً غیر ملکی چینلز کی نگرانی کرنے کی کوئی پالیسی تھی اور نہ ہی فحاشی کی واضح تعریف۔
عدالت عظمیٰ نے پیمرا کو تمام فریقوں کے ساتھ مل کر اس بارے میں کسی واضح موقف تک پہنچنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔