پاکستان کی ایک عدالت نے حکومت کو ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری کی امریکہ حوالگی سے روکتے ہوئے متعلقہ حکام سے جواب طلب کیا ہے۔
19 سالہ طلحہ ہارون پر الزام ہے کہ اس نے شدت پسند تنظیم داعش سے وابستہ افراد کے ساتھ ساز باز کر کے نیویارک میں ایک حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور امریکی حکام نے پاکستان سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ نوجوان اپنے پاکستانی نژاد امریکی والد ہارون رشید کے ساتھ گزشتہ دو سال سے کوئٹہ میں مقیم تھا جسے گزشتہ ستمبر میں پاکستانی حکام نے حراست میں لیا اور گزشتہ کئی ماہ سے یہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بند ہے۔
متعلقہ پاکستانی حکام کی تحقیقات کے بعد اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے مجسٹریٹ عبدالستار عیسانی نے جنوری میں طلحہ کی امریکہ کو حوالگی کے لیے حکام کو اجازت دے دی تھی۔
ہارون رشید نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں دعویٰ کیا کہ ان کے بیٹے نے امریکہ میں کوئی جرم نہیں کیا اور پاکستان میں قیام کے دوران اس پر "جھوٹا الزام" عائد کیا گیا اور اگر اسے امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے تو اس کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔
درخواست میں سیکرٹری داخلہ، وفاقی تفتیشی ادارے "ایف آئی اے" کے ڈائریکٹر، اڈیالہ جیل کے سپریٹنڈنٹ اور ضلعی انتظامیہ کو فریق بنایا گیا ہے۔
پیر کو اس درخواست کی سماعت کرنے والے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے طلحہ کی امریکہ کو حوالے پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے فریقین سے جواب طلب کیا۔
کوئٹہ کے رہائشی ہارون رشید نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے بیٹے طلحہ ہارون نے امریکہ میں کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا اور اگر اسے امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے تو اس کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو گا۔
درخواست گزار کے وکیل طارق اسد نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان کے آئین کی شق 9 ملک میں موجود کسی بھی شخص کی زندگی اور آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور عدالت میں دائر درخواست میں اسی کا حوالہ دیا گیا ہے۔
"ہم نے عدالت کو بتایا کہ اس شق کے تحت اسے یہ آئینی حق حاصل ہے اور اگر اسے وہاں بھیجا جاتا ہے تو اس کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ اس کے خلاف جھوتے الزامات ہیں۔۔۔یہاں پر مقدمہ چلا لیں اگر ثابت ہو جاتا ہے تو ٹھیک ہے۔"
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکہ نے اپنے ہاں کسی معاملے میں ملوث شخص کی پاکستان سے حوالگی کا مطالبہ کیا ہو۔
اس سے قبل 1990ء کی دہائی میں امریکہ میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات میں پاکستان رمزی یوسف اور ایمل کاسی کو بھی امریکہ کے حوالے کر چکا ہے جب کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ امریکہ میں نائن الیون حملوں کے بعد سے پاکستان نے 369 افراد کو امریکی حکام کے حوالے کیا۔