گواسگر چپس بیچتا اور وسیم اکرم ٹریکٹر چلاتا ہے۔۔۔

فائل

کرکٹ بورڈ جس کا کام ہی ملک میں کرکٹ کا فروغ اور پھربہترین ٹیلنٹ پر مشتمل ٹیم بنانا ہے، وہی یہ کام کرنے سے گریزاں ہے

شاہد آفریدی کے 20 سالہ کیئریر اور گاہے گاہے سامنے آنے والے ’’اقوال زریں‘‘ سے زیادہ متاثر کبھی نہیں ہوا پر انہوں نے جاتے جاتے بات بڑے پتے کی کہی ہے کہ وریراعظم نئے ٹیلنٹ کی راہ میں رکاوٹیں ہٹائیں۔۔ یہ بات پلے باندھنے کی ہے، مسئلے کی بنیاد اور مسئلے کا حل دونوں اسی میں پوشیدہ ہیں۔ نیا ٹیلنٹ اگر خود چل کر بڑے شہروں کے بڑے کرکٹ کلبوں میں جگہ بنائے تو بنائے ورنہ گدڑی کے کئی لعل مٹی میں مل جاتے ہیں، کبھی جوہری کی آنکھ تک نہیں پہنچ پاتے۔

کرکٹ بورڈ جس کا کام ہی ملک میں کرکٹ کا فروغ اور پھربہترین ٹیلنٹ پر مشتمل ٹیم بنانا ہے، وہی یہ کام کرنے سے گریزاں ہے اور شاید اس کام کی ساختیاتی اعتبار سے صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ پے در پے شرمناک شکستوں کے بعد ایک بھونڈی سی دلیل دی جاتی ہے کہ بہترین پرفارمرز پر مشتمل ٹیم بنا دی ہے اس کے بعد بھی اگر جیت ندارد ہے تو مسئلہ ٹیلنٹ کا ہے جو ناپید ہو گیا ہے۔

اگر ٹیلنٹ کا نام صرف کراچی لاہور، پشاور، اسلام آباد اور ایک دو دیگر بڑے شہروں سے نکلنے والے کھلاڑیوں کا نام ہے تو پھر تو بورڈ کے کرتا دھرتا اور خاص طور پر سیلیکٹروں کی فوج ظفر موج ٹھیک ہی کہتی ہو گی کیونکہ ان کی عمریں دیکھتے ہوئے ان سے یہ توقع ہی نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ 20 کروڑ آبادی کے اس ملک کے دور دراز علاقوں میں تو کیا آسان پہنچ پر چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہاتوں کا سفر کر سکیں گے۔ ان کی نظروں میں آنے کے لیے گھگو منڈی کے محمد عرفان کو لاہور آ کر پائپ فیکٹری میں کام ڈھونڈنا پڑتا ہے، کلبوں میں جگہ بنانا پڑتی ہے۔ وہاڑی کے وقار یونس کو دوبئی اور غالبا اسلام آباد کا سفر کرنا پڑتا ہے اور پنڈی گھیب کا عامر، محمد عامر تب بنتا ہے جب وہ راولپنڈی آتا ہے۔۔

ایک ناقابل یقین سی بات کر رہا ہوں، آپ ہو سکتا ہے اسے ’’ بڑ‘‘ ہی سمجھیں۔ میں نے لاکھوں کی آبادی والے شہر قصبے میں نہیں، صرف تین ہزار آبادی والے اپنے گاوں میں دنیا کے۔۔۔ جی ہاں دنیا کے بہترین کھلاڑی دیکھے ہیں۔ وہاں عمر بھر اسکول کا منہ نہ دیکھنے والا کاظم تھا جو سارا سال مجھلی (تہمد) باندھتا لیکن دسمبر کے سالانہ ٹورنامنٹ کے لیے کرکٹ کٹ میں آتا تو اس کا کھیل، اس کا انداز اور اس کی باڈی لینگوئج (آفریدی کی نام نہاد باڈی لینگوئج نہیں) کو دیکھ کر شہری کرکٹرز اور ان کے کوچز اسے سنیل گواسکر کہتے تھے۔۔ دی وال۔۔ اس کا چھوٹا بھائی مجاہد عرف مجی۔۔ لیفٹ آرم فاسٹ میڈیم۔۔ آج کے کا عامر اور اس دور کے وسیم اکرم کی طرح ناک میں دم کر دیتا تھا۔۔ ان سوئنگ آوٹ سوئنگ پر قدرت۔۔ان پڑھ مگرکیا ذہین باولر تھا۔ انہی دونوں کا تیسرا بھائی مظہر، ویسٹ انڈیز کے لوگی کے نام سے جانا جاتا تھا، کیا فیلڈر تھا۔۔ اور کیا ڈیفینس تھا اس کا۔۔۔ اس گاوں میں خالد بھی تھا۔۔ پورے کا پورا فلنٹاف۔۔۔ ڈیٹو کاپی۔۔ کیا آل راونڈر تھا۔۔ اور فاروق۔۔ عبدالرزاق جیسی بیٹنگ مگر باولنگ میں رفتار اس سے زیادہ ۔۔ محمد حسین تھا۔۔ شنا۔۔۔۔ رمیض راجہ کی طرح سٹائلش اور سینسیبل۔۔ پوری پلاننگ سے کھیلتا تھا۔۔۔ پروفیسر بھی کہہ سکتے ہیں۔۔ حفیظ پر تو تہمت ہے پروفیسری کی۔۔ ہم سے پانچ چھ سال سینیرز میں ارشد تھا۔۔ جیف تھامسن کی طرح کا مشکل ایکشن اور رفتار۔۔ اگر سپیڈو میٹر ہوتا تو شاید شعیب اختر جتنی رفتار اس کے نام بھی ہوتی۔۔ مخالف ٹیم کے کھلاڑی ایمپائر سے اس کی باقی گیندوں کا ہی پوچھتے رہتے۔۔ واجد۔۔ وہ بس واجد بھروانہ تھا۔۔ کیونکہ چمڑے کی گیند کا جو حشر وہ کرتا تھا۔۔ اس سے پہلے انٹرنیشنل کرکٹ میں مثال نہیں تھی۔۔ ہاں اگر موازنہ ہی کرنا ہے تو بائیں ہاتھ کے اس بلے باز کو آپ ان کے بعد ظہور پذیر ہونے والا جے سوریا سمجھ لیں۔ گلگرسٹ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ابھی تو کپتان کا تذکرہ باقی ہے۔۔ مقبول۔۔ دنیا کا۔۔جی ہاں ایک بار وثوق سے بصد ہوش و حواس کہوں گا وہ دنیا کا بہترین کپتان تھا۔۔ بہترین آل راونڈر۔۔ عمران خان سے بھی بڑا۔۔ ہنسی کرونیے سے بھی بڑا کرکٹنگ برین۔ کیوں؟ کیونکہ وہ ڈریوڈ کی طرح دی وال تھا۔۔ گواسگر کی طرح مستحکم، جاوید میانداد کی طرح کا منصوبہ ساز، ویوین رچڑڈ کی طرح کی جارحیت، عمران خان جیسی اپروچ۔۔ اور باولنگ میں کم قد کاٹھ کےساتھ میلکم مارشل۔۔ کیا سکٹ کراتا تھا۔۔ کیا آئوٹ سوئنگ تھی اس کے پاس۔۔ سو آل ٹائم لیجنڈز کا مجموعہ تھا توہ ایک کھلاڑی۔۔ بلا مبالغہ اسے کبھی گرتے نہیں دیکھا، 20 پر چار (پاکستان کی قومی ٹیم کی طرح) آوٹ ہوئے ہیں تو بھی وہ مرد میدان اور مرد بحران رہا۔۔ نقشہ بدل دیتا تھا۔۔ اور پھر وہ کوچ بھی تھا۔۔ مینیجر بھی۔ کھیل سے پہلے، میچ کے دوران اور بعد میں جس طرح کا گیم پلان وہ بیان کرتا اور کھلاڑیوں کا مورال بلند رکھتا وہ اپنی مثال آپ تھا۔۔

آپ میرے گاوں کے ان کھلاڑیوں کے بارے میں میرے خیالات کو میرا واہمہ سمجھیں، میرا رومانس قرار دیں، مبالغہ آرائی خیال کریں یا مجھے ناسٹلجیا کے مریض اور دیوانے کا نام دیں میں اپنی رائے پر قائم ہوں ۔ میری کرکٹنگ سینس نے انضمام الحق، سعید أنور کو اس وقت بڑے کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل کیا تھا جب وہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے تھے اور اس وقت ولزکپ میں صرف سیمی فائنل اور فائنلر براہ راست دکھائے جاتے تھے، وہیں کہیں دیکھا تھا۔۔

ایک اور دلیل، اگر آپ میری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ فی الوقت پاکستان میں ٹی وی پر سامنے آنے والے بیٹنگ ٹیلنٹ میں میرے نزدیک اسد شفیق، حارث سہیل، عمر اکمل اور سمیع اسلم (حالانکہ آخرالذکر نے کوئی قابل ذکر اننگ ملکی ٹیم کے لیے نہیں کھیلی، پر انداز سے پرکھ ہوتی ہے) ہی بہترین قابل بھروسہ بلے باز ہیں تو پھر آپ میرے گاوں کے میرے لیجنڈز کو بھی لیجنڈز مان لیجیے۔۔ میں نے ابھی تین ہزار آبادی والے گاوں میں موجود ٹیلنٹ کا ذکر کیا ہے چار لاکھ آبادی والے شہر جھنگ کا نہیں جہاں صرف ایک کلب کے ثاقب، عاصی، ساجی، شہزاد (مرحوم) اور دینو جیسے انٹرنیشنل میٹیریل تھا۔ ابھی تو آپ کو یہ بھی نہیں بتایا ہے کہ میں بھی بارہواں کھلاڑی تو ضرور تھا۔۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ میرے گاوں جیسے ہزاروں دیہاتوں، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں کوئی سیلیکٹر نہیں جاتا۔۔ وہاں جاتے جاتے عمر رسیدہ سیلیکٹروں کی چولیں ہل جاتی ہیں۔ لہٰذا وہ بڑے بڑے شہروں کے نام نہاد کلبوں کی اسکور بکس ہی دیکھ پاتے ہیں۔ یا پھر ڈومیسٹک کرکٹ کی اسکور بک۔۔۔ کس کھلاڑی نے کس اعتماد سے کن کنڈیشنز پر کھیلا، یہ سیلیکٹرز کا مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے بڑے شہروں سے رنزوں اوروکٹوں کا ڈھیر لگانے والا ’’اسکوربک ٹیلنٹ‘‘ کشید کر لیا ہے اور میرے گاوں کے ہیروں جیسے اصل کرکٹر ، اصل جوہر مٹی میں مل گئے ہیں۔ میرے گاوں کا گواسکر کاظم آج کل لڑکیوں کے اسکول کے باہر چپس بیچ رہا ہے، اس کا وسیم اکرم جیسا بھائی مجاہد عرف مجی ٹریکٹر چلاتا اور تیسرا بھائی لوگی۔۔ وہ دیگیں پکاتا ہے۔۔۔