پاکستان کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں نے قبائلی علاقے باجوڑ میں فوجی چوکی پر حملہ کیا جس میں چار اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
پاکستان نے کہا ہے کہ سرحد پار افغانستان سے مشتبہ شدت پسندوں نے قبائلی علاقے باجوڑ میں فوجی چوکی پر حملہ کیا جس میں چار اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ حملہ مانوزنگل اور مکھا ٹاپ کی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا گیا جس میں ایک افسر سمیت چار اہلکار زخمی بھی ہو گئے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں سرحد پر اس ’اشتعال انگیز‘ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ معاملہ کابل میں افغان حکومت اور اسلام آباد میں اُن کے سفارت خانے کے سامنے اٹھایا گیا ہے۔
بیان کے مطابق افغان عہدیداروں پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے عمل کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10 روز میں سرحد پار افغانستان سے یہ تیسرا حملہ ہے۔
گزشتہ ہفتے بھی پاکستانی فوج کے مطابق سرحد پار سے شدت پسندوں نے ایک چوکی پر حملہ کیا تھا جس میں ایک اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے 16 شدت پسندوں کو مارنے کا دعویٰ بھی کیا۔
اس واقعے پر بھی پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغانستان سے احتجاج کرتے ہوئے ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اقدمات کرنے پر زور دیا تھا۔
ادھر افغان عہدیداروں نے گزشتہ ہفتے یہ الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے افغان علاقے میں فائرنگ کی جس سے چار شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج نے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا۔
دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے کے لیے گزشتہ ماہ ہی کابل میں سہ فریقی اجلاس ہوا تھا جس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے افغانستان کی فوج کے سربراہ جنرل شیر محمد کریمی اور افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈینفورڈ سے ملاقات میں اس بارے میں اقدامات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان لگ بھگ 2600 کلومیٹر طویل سرحد کے دشوار گزار راستوں کو شدت پسند ایک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور اس غیر قانونی آمد و رفت کو روکنے کے لیے پاکستان نے اپنی جانب کئی چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں۔
پاکستانی حکام افغان عہدیداروں سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ بھی اپنی جانب ایسی ہی قائم چوکیوں کی تعداد کو مزید بڑھائے تاکہ جنگجوؤں کی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔
یہ حملہ مانوزنگل اور مکھا ٹاپ کی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا گیا جس میں ایک افسر سمیت چار اہلکار زخمی بھی ہو گئے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں سرحد پر اس ’اشتعال انگیز‘ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ معاملہ کابل میں افغان حکومت اور اسلام آباد میں اُن کے سفارت خانے کے سامنے اٹھایا گیا ہے۔
بیان کے مطابق افغان عہدیداروں پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے عمل کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10 روز میں سرحد پار افغانستان سے یہ تیسرا حملہ ہے۔
گزشتہ ہفتے بھی پاکستانی فوج کے مطابق سرحد پار سے شدت پسندوں نے ایک چوکی پر حملہ کیا تھا جس میں ایک اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے 16 شدت پسندوں کو مارنے کا دعویٰ بھی کیا۔
اس واقعے پر بھی پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغانستان سے احتجاج کرتے ہوئے ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اقدمات کرنے پر زور دیا تھا۔
ادھر افغان عہدیداروں نے گزشتہ ہفتے یہ الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے افغان علاقے میں فائرنگ کی جس سے چار شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج نے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا۔
دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے کے لیے گزشتہ ماہ ہی کابل میں سہ فریقی اجلاس ہوا تھا جس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے افغانستان کی فوج کے سربراہ جنرل شیر محمد کریمی اور افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈینفورڈ سے ملاقات میں اس بارے میں اقدامات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان لگ بھگ 2600 کلومیٹر طویل سرحد کے دشوار گزار راستوں کو شدت پسند ایک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور اس غیر قانونی آمد و رفت کو روکنے کے لیے پاکستان نے اپنی جانب کئی چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں۔
پاکستانی حکام افغان عہدیداروں سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ بھی اپنی جانب ایسی ہی قائم چوکیوں کی تعداد کو مزید بڑھائے تاکہ جنگجوؤں کی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔