پاکستان میں بنکوں کے علاوہ کئی سرکاری ادارے جن میں حساس دفاعی محکمے بھی شامل ہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مستفید ہورہے ہیں اور کئی بار ان اداروں کی ویب سائٹس کو بھی ہیک کیا جا چکا ہے
اسلام آباد —
انٹرنیٹ اور اس سے متعلقہ دیگر ٹیکنالوجی کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر اب انہیں محفوظ بنانے کے لیے موثر اور فعال اقدامات کے بارے میں بھی سوچا جارہا ہے اور حال ہی میں سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع اور دفاعی پیداوار کی طرف سے اس سے متعلق ایک پالیسی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے منگل کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ پاکستان کو سائبر حملوں سے بچانے کی غرض سے ماہرین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس کو پالیسی ترتیب دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جو کہ اس کے بارے میں ضروری قانون سازی بھی تجویز کرے گی۔
’’اب خطرہ یہ نہیں کہ بھارت اپنی فوج بھیجے گا باڈر کے اس پار۔ خطرہ ہے کہ کچھ ایسے مسئلے پیدا ہورہے ہیں جیسے انٹرنیٹ سکیورٹی کا، سائبر جنگ کا، دہشت گردی کا۔ اس وقت ایران و اسرائیل اور ایران و امریکہ کی جنگ سائبر جنگ ہورہی ہے۔ تو ایسے خطرات سے کیسے نمٹا جائے گا۔ ابھی تک پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لوگوں کو اس کا ادراک نہیں۔‘‘
پاکستان میں بنکوں کے علاوہ کئی سرکاری ادارے جن میں حساس دفاعی محکمے بھی شامل ہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مستفید ہورہے ہیں اور کئی بار ان اداروں کی ویب سائٹس کو بھی ہیک کیا جا چکا ہے جس کے بعد ماہرین کے مطابق ایسے حملوں سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان انفارمیشن سیکیورٹی ایسویشن کے صدر عمار جعفری کو سینیٹ کی کمیٹی کی طرف سے جدید طرز کی اس جنگ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پالیسی بنانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ’’ضروری نہیں کہ حملہ ہم پر ہو۔ کسی دوسرے ملک پر حملہ بھی ہمیں متاثر کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس ماہر ہونے چاہیئں جو کہ ان خطرات کو حملے سے پہلے بھانپ لیں اور اقدامات تجویز کریں یا اقدامات کریں۔‘‘
گزشتہ ستمبر میں انٹرنیٹ کی مقبول ویب سائٹ یو ٹیوب پر متنازع اسلام مخالف فلم کے کچھ حصے نشر ہونے کے بعد حکومت نے ملک میں اس ویب سائٹ تک رسائی پر پابندی عائد کی تھی جو تا حال برقرار ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے تنقید بھی سامنے آئی ہے کہ متعلقہ اداروں کے پاس جدید ٹیکنالوجی کا فقدان ہیں جس وجہ سے بجائے غیر ضروری مواد کے پوری ویب سائٹس تک رسائی کو روکا جاتا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والی بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس کے اعلامیہ میں بھی سائبر کرائم اور جنگ کے خلاف قانون سازی اور اقدامات پر زور دیا گیا۔
کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے منگل کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ پاکستان کو سائبر حملوں سے بچانے کی غرض سے ماہرین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس کو پالیسی ترتیب دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جو کہ اس کے بارے میں ضروری قانون سازی بھی تجویز کرے گی۔
’’اب خطرہ یہ نہیں کہ بھارت اپنی فوج بھیجے گا باڈر کے اس پار۔ خطرہ ہے کہ کچھ ایسے مسئلے پیدا ہورہے ہیں جیسے انٹرنیٹ سکیورٹی کا، سائبر جنگ کا، دہشت گردی کا۔ اس وقت ایران و اسرائیل اور ایران و امریکہ کی جنگ سائبر جنگ ہورہی ہے۔ تو ایسے خطرات سے کیسے نمٹا جائے گا۔ ابھی تک پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لوگوں کو اس کا ادراک نہیں۔‘‘
پاکستان میں بنکوں کے علاوہ کئی سرکاری ادارے جن میں حساس دفاعی محکمے بھی شامل ہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مستفید ہورہے ہیں اور کئی بار ان اداروں کی ویب سائٹس کو بھی ہیک کیا جا چکا ہے جس کے بعد ماہرین کے مطابق ایسے حملوں سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان انفارمیشن سیکیورٹی ایسویشن کے صدر عمار جعفری کو سینیٹ کی کمیٹی کی طرف سے جدید طرز کی اس جنگ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پالیسی بنانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ’’ضروری نہیں کہ حملہ ہم پر ہو۔ کسی دوسرے ملک پر حملہ بھی ہمیں متاثر کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس ماہر ہونے چاہیئں جو کہ ان خطرات کو حملے سے پہلے بھانپ لیں اور اقدامات تجویز کریں یا اقدامات کریں۔‘‘
گزشتہ ستمبر میں انٹرنیٹ کی مقبول ویب سائٹ یو ٹیوب پر متنازع اسلام مخالف فلم کے کچھ حصے نشر ہونے کے بعد حکومت نے ملک میں اس ویب سائٹ تک رسائی پر پابندی عائد کی تھی جو تا حال برقرار ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے تنقید بھی سامنے آئی ہے کہ متعلقہ اداروں کے پاس جدید ٹیکنالوجی کا فقدان ہیں جس وجہ سے بجائے غیر ضروری مواد کے پوری ویب سائٹس تک رسائی کو روکا جاتا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والی بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس کے اعلامیہ میں بھی سائبر کرائم اور جنگ کے خلاف قانون سازی اور اقدامات پر زور دیا گیا۔